"محمد شیبانی خان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م r2.7.2) (روبالہ ترمیم: uz:Shayboniyxon
م Bot: Fixing redirects
سطر 1:
[[تصویر:Shaybani.jpg|thumb|محمد شیبانی خان]]
 
'''ابو الفتح محمد شیبانی خان''' سولہویں صدی میں [[وسط ایشیا]] میں قائم [[ازبک|ازبکوں]] کی سلطنت [[سلسلہ شیبانیان]] کا سب سے بڑا بادشاہ تھا جو [[ابو الخیر خان]] کے دوسرے بیٹے [[شاہ بداغ خان]] کا بیٹا تھا۔ ازبک قبائل [[ابو الخیر خان]] کے انتقال کے بعد [[دریائے سیحوں]] کی زیریں وادی میں منتقل ہوگئے تھے اور یہاں سے وہ کبھی [[مشرقی ترکستان]] کے [[مغول|منگول]] حکمرانوں اور [[تیموری سلطنت|تیموریوں]] کے حلیف کی حیثيت سے اور کبھی ان کے خلاف لشکر میں حصہ لیتے رہتے۔
 
1468ء میں منگول حکمران [[محمود خان ابن یونس خان]] نے محمد شیبانی کو اس کی خدمت کے سلسلے دریائے سیحوں کے کنارے شہر ترکستان کی حکومت دے دی۔ شیبانی خان 1494ء [[ماوراء النہر]] میں داخل ہوا اور پانچ چھ سال کے عرصے میں پورے ماوراء النہر پر قبضہ کرلیا۔ [[بخارا]] اور [[سمرقند]] کے درمیان سر پل کی جنگ میں [[ظہیر الدین محمد بابر|بابر]] کو شکست دے کر 1500ء میں سمرقند پر بھی قبضہ کرلیا اور ترکستان میں تیموریوں کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ 1505ء میں اس نے [[خوارزم]] فتح کرنے کے بعد [[دریائے جیحوں]] کو پار کیا اور [[مرو]] کے قریب [[حسین بائیقرا]] کے بیٹے [[بدیع الزماں]] اور دوسرے تیموری شہزادوں کے متحدہ لشکر کو شکست دی اور 24 مئی 1507ء کو [[ھرات|ہرات]] میں داخل ہوکر تیموری اقتدار کا خاتمہ کردیا۔
 
1508ء میں شیبانی نے صوبہ [[جرجان]] پر بھی قبضہ کرلیا۔ اب وہ ایک وسیع و عریض سلطنت کا مالک تھا جو [[بحیرہ ارال|جھیل ارال]] سے [[بلخ]] اور [[ھرات|ہرات]] تک اور [[وادئ فرغانہ|فرغانہ]] سے [[جرجان]] تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب [[ایران]] میں شاہ [[اسماعیل صفوی]] ایک طاقتور حکومت قائم کر چکا تھا اور [[سنیاہل سنت|سنیوں]] کو زبردستی [[اہل تشیع|شیعہ]] بنا رہا تھا۔ اس کے اس تعصب اور کٹر پن نے [[عثمانیسلطنت عثمانیہ|عثمانی ترکوں]] اور ازبکوں میں آگ لگادی دی تھی کیونکہ وہ کٹر سنی تھے۔ ازبکوں کا ردعمل خاص طور پر ویسا ہی متعصبانہ تھا جیسا صفوی حکمران کا تھا اور وہ کسی صورت صفویوں سے تصفیہ کے لیے تیار نہ تھے۔ چنانچہ جب ازبکوں نے ایران کی طرف پیش قدمی کی تو شاہ اسماعیل سے ٹکراؤ ہوگیا۔ مرغاب کے پاس 1510ء کو ازبکوں اور صفویوں میں ایک خونریز جنگ ہوئی۔ ازبک بے جگری سے لڑے لیکن ان کو شکست ہوگئی اور شیبانی خان مارا گیا۔ شاہ اسماعیل کی نفرت کا یہ عالم تھا کہ اس نے شیبانی کی کھوپڑی اتار لی اور اس پر سونا چڑھا لیا اور اس کو پیالے کی جگہ استعمال کرتا تھا۔<ref>'''ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ''' از [[ثروت صولت]]</ref>
 
یہ بات حقیقت ہے کہ ازبک جاہل اور نیم وحشی تھے اور ان کی زندگیوں پر [[اسلام]] کے اثرات بہت سطحی تھے بلکہ ان کی رسوم ترکوں اور منگولوں کی قبل از اسلام کی رسومات اور اسلام کا مجموعہ تھیں۔ اس لیے ایرانی مورخین سے ان کی برائیوں کو بہت زیادہ بڑھا چڑھ کر پیش کیا جس میں مبالغہ اور تعصب شامل ہے انہوں نے شیبانی خان کی بہت کریہہ تصویر کھینچی ہے جو حقیقت سے دور ہے۔ [[مجارستان|ہنگری]] کا مشہور مستشرق [[ویمبری]] اپنی کتاب میں شبانی کے متعلق لکھتا ہے کہ
"شیبانی ہر گز وحشی نہ تھا جیسا کہ اس کے ایرانی دشمن بیان کرتے ہیں۔ اس کو راگ رنگ اور شاعری سے دلچسپی تھی۔ لڑائیوں تک میں اس کے ساتھ اس کا چھوٹا کتب خانہ رہتا تھا۔ وہ شاعر بھی تھا اور اس کا کلام مشرقی ترکی ادب کا اچھا نمونہ ہے۔ وہ علماء کی عزت کرتا تھا۔ سلطان حسین بائیقرا کے مرنے کے بعد جو علما اور فضلاء بے خانماں ہو گئے تھے، انہیں شیبانی نے روزگار فراہم کیا۔ [[بخارا]]، [[سمرقند]] اور [[تاشقند]] میں اس نے مدرسے بنائے۔ جب وہ تاریخ کے منظر پر پہلی بار ظاہر ہوا تو لفظ ازبک جاہل اور وحشی کے ہم معنی تھا لیکن یہ تعریف شیبانی پر صادق نہیں آتی۔ وہ ویسا ہی شائستہ اور مہذب تھا جیسے تیموری گھرانے کے دوسرے شہزادے"۔ <ref>'''تاریخ بخارا''' از ویمبری (اردو ترجمہ) صفحہ نمبر 341 </ref>