"سورہ الاخلاص" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م Bot: Fixing redirects
م املا کی درستگی
سطر 27:
اس کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے۔، اور یہ اختلاف اُن روایات کی بنا پر ہے جو اس کے سببِ نزول کے بارے میں منقول ہوئی ہیں۔ ہم ان کو سلسلہ وار درج کرتے ہیں۔
۱)۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول صلی اللہ و علیہ و سلم سے کہا کہ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے۔ (1) اس پر یہ سورت نازل ہوئی (طَبرانی)۔
۲)۔ ابو العالیہ نے حضرت اُبَی بن کعبؓ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ مشرکین نے رسول اللہؐ سے کہا کہ کہ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے، اس پر اللہ تعالیٰتعالٰیٰ نے یہ سورۃ نازل فرمائی (مسند احمد، ابن ابی حاتم، ابن جریر، ترمذی، بخاری فی التاریخ، ابن المنذر، حاکم، بیہقی)۔ ترمذی نے اسی مضمون کی ایک روایت ابو العالیہ سے نقل کی ہے جس میں حضرت اُبی بن کعبؓ کا حوالہ نہیں ہے اور اسے صحیح تر کہا ہے۔
۳)۔ حضرت جابر بن عبد اللہؓ کا بیان ہے کہ ایک اعرابی نے، اور بعض روایات میں ہے کہ لوگوں نے ) نبی صلی اللہ و علیہ و سلم سے کہا کہ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے، اس پر اللہ تعالیٰتعالٰیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی (ابو یعلیٰ، ابن جریر، ابن المنذر، طَبرانی فی الاوسط، بیہقی، ابو نعیم فی الحلیہ)۔
۴)۔ عکرمہ نے ابن عباسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ یہودیوں کا گروہ رسول صلی اللہ و علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا جس میں کعب بن اشرف اور حُبی بن اخطب وغیرہ شامل تھے، اور انہوں نے کہا ’اے محمد (صلی اللہ و علیہ و سلم) ہمیں بتائیے کہ آپ کا وہ رب کیسا ہے جس نے آپ کو بھیجا ہے۔‘ اس پر اللہ تعالیٰتعالٰیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی (ابن ابی حاتم، ابن عدی، بیہقی فی الاسماء و الصفات)۔
۵) ۔حضرت انس کا بیان ہے کہ خیبر کے کچھ یہودی رسول صلی اللہ و علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا ’اے ابو القاسمؐ! اللہ نے ملائکہ کو نورِ حجاب سے، آدم کو مٹی کے سڑے ہوۓ گارے سے، ابلیس کو آگ کے شعلے ےسے، آسمان کو دھوئیں سے اور زمین کو پانی کے جھاگ سے بنایا، اب ہمیں اپنے رب کے متعلق بتائیے کہ وہ کس چیز سے بنا ہے؟‘ رسول اللہ صلی اللہ و علیہ و سلم نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ پھر جبرئیلؑ آئے اور انہوں نے کہا ’ اے محمد صلی اللہ و علیہ و سلم، ان سے کہئے کہ ہو اللہ احد۔
۶)۔ عامر بن امطفیل نے حضور صلی اللہ و علیہ و سلم سے کہا ‘ اے محمد صلی اللہ و علیہ و سلم، آپ کس چیز کی طرف ہمیں بلاتے ہیں؟‘۔ آپؐ نے فرمایا ’اللہ کی طرف‘۔ عامر نے کہا ’اچھا تو اس کی کیفیت مجھے بتائیے۔ وہ سونے سے بنا ہوا ہے یا چاندی سے یا لوہے سے؟‘ اس پر یہ سورہ نازل ہوئی۔
۷)۔ ضحاک اور قتادہ اور مقاتل کا بیان ہے کہ یہودیوں کے کچھ علماء حضور صلی اللہ و علیہ و سلم کے پاس آۓ اور انہوں نے کہا ’اے محمد صلی اللہ و علیہ و سلم، اپنے رب کی کیفیت ہمیں بتائیے، شاید کہ ہم آپ صلی اللہ و علیہ و سلم پر ایمان لے آئیں۔ اللہ نے اپنی صفت تورات میں نازل کی ہے، آپ بتائیے کہ وہ کس چیز سے بنا ہے؟، کس جنس سے ہے؟ سونے سے بنا ہے یا تانبے سے یا پیتل سے یا لوہے سے یا چاندی سے؟ اور کیا وہ کھاتا اور پیتا ہے؟ اور کس سے اس نے دنیا وراثت میں پائی ہے، اور اس کے بعد کون اس کا وارث ہو گا؟‘ اس پر اللہ تعالیٰتعالٰیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔
۸)۔ ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد سات پادریوں کے ساتھ نبی صلی اللہ و علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے حضور صلی اللہ و علیہ و سلم سے کہا ’ہمیں بتائیے کہ آپ ؐ کا رب کیسا ہے؟ کس چیز سے بنا ہے؟ آپ صلی اللہ و علیہ و سلم نے فرمایا، ’میرا رب کسی چیز سے نہیں بنا ہے، وہ تمام اشیاء سے جدا ہے‘ ۔ اس پر اللہ تعالیٰتعالٰیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف مواقع پر مختلف لوگوں نے رسول الہ صلی اللہ و علیہ و سلم سے اس معبود کی ماہیت اور کیفیت دریافت کی تھی جس کی بندگی و عبادت کی طرف آپ صلی اللہ و علیہ و سلم لوگوں کو دعوت دے رہے تھے۔ اور ہر موقع پر آپ نے اللہ تعالیٰتعالٰیٰ کے حکم سے ان کو جواب میں یہی سورت نازل ہوئی۔ اس کے بعد مدینہ طیبہ میں یہودیوں نے کبھی عیسائیوں نے اور کبھی عرب کے دوسرے لوگوں نے حضور صلی اللہ و علیہ و سلم سے اسی نوعیت کے سوالات کئے، اور ہر مرتبہ اللہ تعالیٰتعالٰیٰ کی طرف سے اشارہ ہوا کہ جواب میں یہی سورت آپ ان کو سنا دیں۔
ان روایات میں سے ہر ایک میں یہ جو کہا گیا ہے کہ اس موقع پر یہ سورت نازل ہوئی تھی۔ اس سے کسی کو یہ خیال نہ ہونا چاہئے کہ یہ سب روایتیں باہم متضاد ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی مسئلے کے بارے میں اگر پہلے سے کوئی آیت یا کوئی سورہ نازل شدہ ہوتی تھی، تو بعد میں جب کبھی حضور صلی اللہ و علیہ و سلم کے سامنے وہی مسئلہ پیش کیا جاتا، اللہ کی طرف سے ہدایت آ جاتی تھی کہ اس کا جواب فلاں آیت یا سورے میں ہے یا اس کے جواب میں وہ آیت یا سورہ لوگوں کو پڑھ کر سنا دی جائے۔ احادیث کے راوی اس چیز کو یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ جب فلاں معاملہ پیش آیا یا فلاں سوال کیا گیا، تو یہ آیت یا سورہ نازل ہوئی۔ اس کو تکرارِ نزول سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک آیت یا سورہ کا کئی مرتبہ نازل ہونا۔
پس صحیح بات یہ ہے کہ یہ سورہ در اصل مکی ہے، بلکہ اس کے مضمون پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مکے کے بھی ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے۔ جب اللہ تعالیٰتعالٰیٰ کی ذات و صفات کے بیان میں قرآن کی مفصل آیات ابھی نازل نہیں ہوئی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ و علیہ و سلم کی دعوت الی اللہ کو سن کر لوگ یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ آخر آپ کا وہ رب ہے کیسا کس کی بندگی و عبادت کی طرف آپؐ لوگوں کو بلا رہے ہیں۔ اس کے بالکل ابتدائی دور کی نازل شدہ سورت ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ مکے میں جب حضرت بلالؓ کا آقا امیہ بن خلف ان کو دھوپ میں تپتی ہوئی ریت میں لٹا کر ایک بڑا سا پتھر ان کی چھاتی پر رکھ دیتا تھا تو وہ ’احد احد‘ پکارتے تھے۔ یہ لفظ ’احد‘ اسی سورہ سے ماخوذ تھا۔
 
موضوع اور مضمون
سطر 46:
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ و علیہ و سلم کی نگاہ میں اس سورت کی بڑی عظمت تھی اور آپؐ مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو اس کی اہمیت محسوس کراتے تھے تا کہ وہ کثرت سے اس کو پڑھیں اور عوام الناس اسے پھیلائیں کیوں کہ یہ اسلام کے اولین بنیادی عقیدے (توحید) کو چار ایسے مختصر فقروں میں بیان کر دیتی ہے جو فوراً انسان کے ذہن نشین ہو جاتے ہیں اور آسانی سے زبانوں پر چڑھ جاتے ہیں۔
احادیث میں کثرت سے یہ روایت بیان ہوئی ہے کہ حضور صلی اللہ و علیہ و سلم نے مختلف مواقع پر مختلف طریقوں سے بتایا کہ یہ سورت ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔ بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد، طبرانی وغیرہ میں اس مضمون کی متعدد احادیث ابو سعید خدریؓ، ابو ہریرہؓ، ابو ایوب انصاریؓ، ابو درداءؓ، معاذؓ بن جبل، جابرؓ بن عبد اللہ، اُبَی بن کعبؓ، ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط، ابن عمرؓ، ابن مسعودؓ، قتادہؓ بن النعمان، انسؓ بن مالک اور ابو مسعودؓ سے منقول ہوئی ہیں۔ مفسرین نے حضور صلی اللہ و علیہ و سلم کے اس ارشاد کی بہت سی توجیہات بیان کی ہیں۔مگر ہمارے نزدیک سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ قرآن مجید جس دین کو پیش کرتا ہے، اس کی بنیاد تین عقیدے ہیں۔ ایک توحید، دوسرے رسالت، تیسرے آخرت۔ یہ سورہ چونکہ خالص توحید کو بیان کرتی ہے، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ و علیہ و سلم نے اس کو ایک تہائی قرآن کے برابر قرار دیا۔
حضرت عائشہؓ کی یہ روایت بخاری و مسلم اور بعض دوسری کتب حدیث میں نقل ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ و علیہ و سلم نے ایک صاحب کو ایک مہم پر سردار بنا کر بھیجا، اور اس پورے سفر کے دوران میں ان کا مستقل طریقہ یہ رہا کہ ہر نماز میں وہ قل ہو اللہ احد پر قرات ختم کرتے تھے۔ واپسی پر ان کے ساتھیوں نے حضور صلی اللہ و علیہ و سلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپؐ نے فرمایا، ’ان سے پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کرتے تھے؟‘۔ ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس میں رحمٰن کی صفت بیان کی گئی ہے، اس کا پڑھنا مجھے بہت محبوب ہے۔ حضور صلی اللہ و علیہ و سلم نے یہ بات سنی تو لوگوں سے فرمایا ’’اخبروہ ان اللہ تعالیٰتعالٰیٰ محبُہٗ۔ ’ان کو خبر دے دو کہ اللہ تعالیٰتعالٰیٰ ان کو محبوب رکھتا ہے‘‘۔
اسی سے ملتا جلتا واقعہ بخاری میں حضرت انسؓ سے مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ انصار میں سے ایک صاحب مسجد قُبا میں نماز پڑھاتے تھے اور ان کا طریقہ یہ تھا کہ ہر رکعت میں پہلے قل ہوا اللہ پڑھتے پھر اور کوئی سورت تلاوت کرتے۔ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا اور ان سے کہا کہ یہ تم کیا کرتے ہو کہ قل ہو اللہ پڑھنے کے اسے کافی نہ سمجھ کر اور کوئی سورت بھی اس کے ساتھ ملا لیتے ہو، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ یا تو صرف اسی کو پڑھو، اور یا اسے چھوڑ کر کوئی اور سورت پڑھو‘۔ انہوں نے کہا۔ ‘میں اسے نہیں چھوڑ سکتا، تم چاہو تو میں تمہیں نماز پڑھاؤں ورنہ میں امامت چھوڑ دوں‘۔ لیکن لوگ ان کی جگہ کسی اور کو امام بنانا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ آخرکار معاملہ حضور صلی اللہ و علیہ و سلم کے سامنے پیش کیا گیا۔ آپؐ نے ان سے پوچھا کہ ’تمہارے ساتھی جو کچھ چاہتے ہیں، اسے قبول کرنے میں تم کو کیا امر مانع ہے؟ تمہیں ہر رکعت میں یہ سورت پڑھنے پر کس چیز نے آمادہ کیا؟‘ انہوں نے عرض کیا۔ ‘مجھے اس سے بہت محبت ہے۔‘ آپؐ نے فرمایا، ’حبکِ ایاَ ہا ادخلک الجنۃ۔ اس سورت سے تمہاری محبت نے تمہیں جنت میں داخل کر دیا ۔‘