"ایمان (اسلامی تصور)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م Bot: Fixing redirects
سطر 22:
 
’’حضرت حارث بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا : ’’اے حارث! (سناؤ) تم نے صبح کیسے کی؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے ایمان کی حقیقت پاتے ہوئے صبح کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حارث! غور کر کے بتاؤ تم کیا کہہ رہے ہو؟ بے شک ہر شے کی ایک حقیقت ہوتی ہے، تمہارے ایمان کی کیا حقیقت ہے؟ عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے اپنے نفس کو دنیا کی محبت سے جدا کر لیا ہے اور راتوں کو جاگ کر عبادت کرتا ہوں اور دن کو (روزے کے سبب) پیاسا رہتا ہوں گویا میں اپنے رب کے عرش کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں اور مجھے ایسے لگتا ہے جیسے جنتی ایک دوسرے کی زیارت کرتے جا رہے ہیں اور دوزخیوں کو (اس حالت میں) دیکھتا ہوں کہ وہ ایک دوسرے پر گر رہے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حارث تم عارف ہو گئے، پس اس (کیفیت و حال) کو تھامے رکھو اور یہ (جملہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا۔‘‘ {{ع}}(ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 170، رقم : 30325){{ڑ}}
 
== ایمانیات کےبنیادی ذرائع و احکام اوران کے دلائل ==
 
ایمانیات و عقائد کے اصول و ذرائع قرآن وسنت ہیں، اس باب میں قیاس اور اندازوں کی گنجائش نہیں ہوتی، کسی بھی بات کو ایمانیات و عقائد کا حصہ بنانے کےلئے ضروری ہے کہ وہ بات اللہ اور اس کے رسول سے منقول ہو، اور قرآن و سنت میں مذکور ہو، اس طرح سے کہ قرآن و سنت نے اس کو ماننے کا مطالبہ کیا ہے، یا قرآن و سنت نے اس کو ماننے کی نسبت اللہ کی جانب کی ہے، یا قرآن و سنت نے اس بات کے ماننے کی نسبت انبیا٫ و رسل اور ان کے پیرکاروں کی جانب کی ہے۔
وأسماء الله عز و جل تؤخذ توقيفا ولا يجوز أخذها قياسا۔
(اصول الدین:۱/۱۰۸)
 
وَكَيْفَ تُعْلَمُ أُصُولُ دِينِ الْإِسْلَامِ مِنْ غَيْرِ كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ ؟ وَكَيْفَ يُفَسَّرُ كِتَابُ اللَّهِ بِغَيْرِ مَا فَسَّرَهُ بِهِ رَسُولُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُ رَسُولِهِ، الَّذِينَ نَزَلَ الْقُرْآنُ بِلُغَتِهِمْ ؟ وَقَدْ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ». وَفِي رِوَايَةٍ: «مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ». وَسُئِلَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَفَاكِهَةً وَأَبًّا}
(1). مَا الْأَبُّ ؟ فَقَالَ: أَيُّ سَمَاءٍ تُظِلُّنِي، وَأَيُّ أَرْضٍ تُقِلُّنِي، إِذَا قُلْتُ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا لَا أَعْلَمُ ؟
(شرح العقیدۃ الطحاویۃ لإبن أبی العز:۱/۱۱۴)
 
* نقاطی فہرست کی مَد قطعی دلائل:
 
 
[[زمرہ:اسلام]]