"میر خلیل الرحمٰن" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م 2.145.100.46 (تبادلۂ خیال) کی ترامیم واپس ؛ Shuaib-bot کی گذشتہ تدوین کی جانب۔
سطر 16:
| website =
| footnotes =
}}
میر خلیل الرحمٰن جنگ گروپ آف نیوز پیپر کے بانی تھے وہ 1921 کو ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے جو کہ ہجرت کرکے گوجرانوالہ میں منتقل ہوچکا تھا۔ ان کے والد [[میر عبدالعزیز]] تھے جو تعلیم کے حصول کے لئے علی گڑھ گئے تھے۔ دادا [[امیرجان]] محمد ایک تاجر تھے۔ میر عبدالعزیز نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد [[دلی]] میں ملازمت اختیار کرلی اور اپنے پورے خاندان کو بھی بلوالیا۔ ابھی میر خلیل الرحمٰن ابتدائی برسوں میں ہی تھے ان کے والد میر عبدالعزیز کا انتقال ہوگیا۔
 
میر خلیل الرحمٰن نے اپنی اخباری زندگی کا آغاز ایک ہاکر سے کیا، انہوں نے جلد ہی اخباری مالکان سے تعلقات قائم کرلئے۔ اس دوران انہیں اپنا اخبار شائع کرنے کا خیال آیا۔ انہوں نے سرمائے کی عدم دسیابی کے باوجود جنگ کے نام سے 1941 میں دلی سے ایک شام کا اخبار شائع کیا۔ وہ [[دوسری جنگ عظیم|جنگ عظیم دوئم]] کا زمانہ تھا۔ انہوں نے اس دوران جنگ عظیم کے علاوہ جدوجہد آزادی کو بھی خبروں میں نمایا مقام دیا۔ غالبا اخبار کا نام بھی ان ہی حالات کی مناسبت سے جنگ رکھا گیا ہوگا۔ اخبار کی قیمت صرف ایک پیسہ تھی۔ میر خلیل الرحمٰن کے بقول اخبار کی فروخت سے جو رقم ملتی تھی اسی سے دوسرے روز کے اخبار کا کاغز خریدا جاتا۔
 
قیام پاکستان کے بعد انہوں نے پورے خاندان سمیت [[پاکستان]] ہجرت کی اور [[کراچی]] کے [[برنس روڈ]] پر ایک چھوٹا سا کمرہ لے کر 15 اکتوبر 1947 کو[[روزنامہ جنگ]] [[خبر|اخبار]] کا باقاعدہ آغاز کیا۔ یہ وہ دن تھے جب جنگ شام کا اخبار تھا۔ جلد ہی جنگ اخبار نے کامیابیاں حاصل کرنا شروع کردیں۔
 
جنگ کے ابتدائی دنوں میں میر خلیل الرحمٰن نے اخبار کے لئے سخت محنت کی وہ خودہ پریس کانفرنس میں بھی جاتے اور دیگر امور بھی انجام دیتے۔ انہوں نے کتابت بھی سیکھ رکھی اگر کاتب کو تاخیر ہوتی وہ ہنگامی حالت میں خود ہی کتابت بھی کرلیتے تھے۔ انہوں نے پاکستان میں صحافت کو نئی جہت دی اور ہمیشہ نئی ٹیکنالوجی درآمد کرنے میں پہل کی۔ کمپیوٹر کی نوری نستعلیق کتابت بھی انہوں نے پاکستان کے ایک نامور کاتب اور [[برطانیہ]] کی ایک کمپنی کے ساتھ مل کر بنوائی تھی اور اس کتابت کا پہلا اخبار لاہور سے شائع کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتداء میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ شاید قارئیں نئی کمپیوٹر کتابت کو پسند نہ کریں مگر لاہور میں اخبار کے نئے انداز بہت پسند کیا گیا اور آج یہ تقریبا ہر اخبار میں رائج ہے۔
 
صحافیوں کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں میر خلیل الرحمٰن نے آپ کی زندگی کی سب سے بڑی خبر پر کہا تھا کہ میری زندگی کی سب سے بڑی خبر قیام پاکستان کا اعلان تھا اور میری زندگی کی سب سے بُری خبر [[جنگ آزادی بنگلہ دیش|سقوط مشرقی پاکستان]] تھا، اس خبر نے مجھ پر سکتہ طاری کردیا اور دل ڈوبنے لگا، یہ اتنا بڑا سانحہ ہے کہ اسے بیان کرنے کے لئے نہ اس وقت میرے پاس الفاظ تھے اور نہ اب ہیں۔
 
==میر خلیل الرحمٰن نقادوں کی نظر میں==
سطر 53 ⟵ 63:
خدا جانے مسلم اُمہ کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے، اسپین ہو یا سمرقند بخارا ہو یا بغداد یا پھر اپنا پیارا پاکستان، سازشیں ہمیشہ ان کے اپنے وطن میں پنپتی ہیں اور ملک گنوانے کے بعد ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ سب ہمارے اپنوں کا کیا کرایا ہے۔
اگر 'جنگ‘ برسر جنگ نہ ہوتا تو ایک متعین ہدف کو پالینے کے لئے متحرک ہونے والی قوم اتنی جلد گم گشتہ راہ نہ ہوتی
==عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں جنگ گروپ کا کردار==
پاکستان میں عریانیت اور فحاشی میں پیش پیش جنگ گروپ
عدلیہ کی بحالی کی تحریک اور پاکستان کے عدالتی وآئینی بحران جو کہ 2007 میں پاکستانی کے آمر حکمران [[پرویز مشرف]] کے دور میں شروع ہوا تھا، [[جنگ گروپ]] اور اس کے ذیلی ادارے [[جیو ٹی وی]] نے بے شمار قربانیاں دیں۔ [[جیو ٹی وی|جیوٹی وی]] کو 2009-2007 کے دوران متعدد بار پرویز مشرف اور بعد ازاں نئے صدر [[آصف زرداری]] کی جانب سے اعلانیہ و غیر اعلانیہ بندش کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے ادارے کو اروبوں روپے کا نقصان ہوا۔ اس کشمکشمش کے دوران براہ راست دکھائے جانے والے ایک کرکٹ کا معاہدہ بھی منسوخ کیا گیا جو جیو ٹی اور جنگ گروپ کے لئے بہت بڑے مالی خسارے کا باعث تھا۔ علاوہ ازیں سابق صدر اور آمر حکمران [[پرویز مشرف]] نے عرب امارات کے حکام پر دبائو ڈال کر جیو ٹی وی کی نشریات کو دبئی سے بھی (جہاں جیو ٹی وی کا ہیڈ آفس تھا) بند کروادیا اس کے نتیجے میں جیو کے دنیا بھر کے ٹی وی چینلز سے معمول کی نشریات بند ہوگئیِں۔ کہاجتا ہے کہ وکلاء تحریک میں سب سے اہم کردار مڈیا نے ادا کیا جن میں دیگر اخبارات اور ٹی وی چینلز کے علاوہ جنگ گروپ کا کردار بہت اہم رہا ہے۔
 
ہندوستان اور پاکستان کے ابتدائی زمانے میں لمحہ لمحہ بدلتے ہوئے سیاسی تناظر، کشمیر کے مسئلے، نئی سرحدوں اور دریاؤں کی تقسیم کے نہایت اہم معاملات کے ساتھ بین الاقومی سطح پر ایک خاص انداز کی گروہ بندیوں میں 'جنگ‘ نے تمام اخبارات کے مقابلے پر سب سے زیادہ سیاسی استحصال کیا اور اپنے عوام میں کبھی وہ شعور پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جو ایک حقیقی صحافت کا فرض ہوتا ہے۔ چڑھتے سورج کے ساتھ موضوعات بدل دینا 'جنگ‘ کی صحافت کا بڑا وصف تھا۔ بحران کی صورت میں ٹھہراؤ پیدا کرنے کی بجائے اپنی اشاعت کو بڑھانا اور حقائق سے پردہ نہ اٹھانا 'جنگ‘ کی پالیسی تھی، اس کے نتیجے میں غلام محمد جیسے افراد اقتدار میں آئے، فوج کو مداخلت کا موقع فراہم ہوا اور بالآخر ملک ٹوٹ گیا۔ ملک کی تباہی میں 'جنگ‘ کی ترقی کا سامان وافر تھا، 'جنگ‘ کے اثاثے لاکھوں سے کروڑوں میں ہو گئے تھے۔ اخبار انجام کو شکست دینے کیلئے سنسنی خیز مواد، جنسی اور جرائم پر مبنی کہانیاں اور عورت کا جسم اخبار کی مستقل خصوصیت بنا رہا۔ نظریاتی اور دینی پس منظرکا احساس وہاں کوئی قیمت نہیں رکھتا تھا۔ مس جین کی کہانی لوگوں کو اب بھی یاد ہوگی۔ یہ بے ہودگی اس سے پہلے کسی اخبار کی زینت نہیں بنی تھی۔ 'جنسی عمل کا دورانیہ‘ شہ سرخی کے ساتھ دینا، فلمی دُنیا کے اسکینڈل، لوگوں کیلئے موضوع سخن بنا دینا، 'جنگ‘ کو اس میں یدطولی حاصل تھا۔
 
[[زمرہ:1927ء کی پیدائشیں]]
[[زمرہ:1921ء کی پیدائشیں]]