کسی مخصوص مدت (عموماً مالیاتی سال) کے دوران کسی ملک کی حدود میں پیدا ہونیوالی تمام اشیاء اور خدمات کی بازار میں موجود قدر (مارکیٹ ویلیو) خام ملکی پیداوار (GDP - gross domestic product) کہلاتی ہے۔ یہ معاشی ترقی کا سب سے اہم شماریاتی اشاریہ ہے۔ اس میں وہ اشیاء اور خدمات شامل نہیں ہیں جو اس ملک کے شہری غیر ممالک میں پیدا کرتے ہیں۔ اگر ہم اس میں وہ اشیاء اور خدمات شامل کر دیں جو اس ملک کے شہری غیر ممالک میں پیدا کرتے ہیں اور وہ پیداوار تفریق کریں جو غیر ملکی اس ملک میں کر رہے ہیں تو اسے خام قومی پیداوار (GNP - gross national product) کہتے ہیں۔

ممالک کی خام ملکی پیداوار 2011[1]
  سے زیادہ $129,696
  $64,848–129,696
  $32,424–64,848
  $16,212–32,424
  $8,106–16,212
  $4,053–8,106
  $2,027–4,053
  $1,013–2,027
  $507–1,013
  سے کم $507
  دستیاب نہیں

اقتباس ترمیم

  • جی ڈی پی سے مراد ہوتا ہے کہ کرنسی میں کتنی گردش ہوئی۔ معاشی ترقی کا اندازہ جی ڈی پی سے نہیں بلکہ رئیل جی ڈی پی سے ہوتا ہے۔[2]
حکومت کے معاشی ماہرین کے ذہن میں تضاد کی یہ وجہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کی معاشی کارکردگی ناپنے کی ِاکائ جی ڈی پی ہے۔ جو غلط ہے۔ جی ڈی پی تو بس روپیوں کی ایک جملہ رقم کا ایک خاص مدت کے لحاظ سے اعداد و شمار ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ معیشت میں کمی بیشی کو ناپنے کی اکای نہیں۔
Behind the confusion in government economists’ minds is a false conviction that GDP records the performance of an economy. This is wrong. GDP is just a money-total at a previous point in time, and no more than that. It is not a measure of economic progress or regress. A change in GDP reflects only a change in the quantity of money in the economy, so it is perfectly possible for an economy to contract, or even collapse, while nominal GDP rises.[3]
  • چونکہ کریڈٹ ٹرانزیکشن کو جی ڈی پی میں شمار کیا جاتا ہے اس لیے بینک کریڈٹ فراواں کر کے یا کریڈٹ بند کر کے جی ڈی پی پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن مندی کا الزام گاہکوں پر لگتا ہے۔
One of the extraordinary failures of modern thinking concerns an almost total blindness to the cyclicality of bank lending. And what is nominal GDP, which is used to measure economic performance? It is no more nor no less than the deployment of credit for qualifying transactions making up GDP. Yet no one appears to understand the consequences of this important fact. GDP rises and falls, not driven by consumers but by changes in the availability of bank credit. Consumer behaviour is not the source of recessions in consumer activity; it is the availability of the credit that drives it.[4]
  • کئی صدیوں کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ جب قرضوں کی مقدار جی ڈی پی کے 90 فیصد سے زیادہ ہو جاتی ہے تو معاشی ترقی سست ہو جاتی ہے۔ امریکا میں یہ 330 فیصد، یورپی یونیئن میں 450 فیصد اور جاپان میں 600 فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے۔
history has proved throughout the centuries that once an economy has more than a 90 percent total debt to GDP ratio, its economic growth becomes impaired. The total in the U.S. is now 330 percent, in the EU it is 450 percent, and Japan has over 600 percent total debt to GDP.[5]
  • GDP doesn’t count for anything besides pure, adulterated propaganda[6]
  • ریئل جی ڈی پی کے اعداد بھی سچے نہیں ہوتے۔
even real GDP numbers are not “real”![7]

حوالہ جات ترمیم