خرشبون
خرشبون نعمت اللہ ہراتی لکھتا ہے کہ سربنی بن قیس کے چھوٹے لڑکے کا نام خرجنون (خیر الدین) تھا۔ (نعمت اللہ ہراتی، مخزن افغانی، 416) یہ کلمہ شیر محمد گنڈا پور اور معارف اسلامیہ خرشبون آیا ہے۔ جب کہ خیرالدین اس کا معرب ہے۔ اس کلمہ کا ابتدائی جز ’خر‘ ہے جس کے معنی گدھے کے ہیں اور یہ کلمہ اوائل اسلام میں ناموں میں جن میں فرد اور قومیں شامل ہیں اور افغانستان میں قدیم زمانے میں ان کے ناموں میں عام استعمال ہوا ہے۔ اس کے علاوہ برصغیر کی قوموں کے ناموں میں بھی یہ کلمہ استعمال ہوا ہے۔ (دیکھے خر) یہ کلمہ پٹھانوں کے شجرہ نسب میں مختلف شکلوں میں ملتا ہے۔ مثلاً خران، بازخر، خرموذی، خو خرہ، خرمڑ، خربوٹی، خر مغز، ہخر، خریخ، خری وغیرہ ہیں۔ ان کلمات کی اصل خر ہے باقی دوسرے اضافی کلمات نسبتی ہیں۔ کلمہ خرشبون کی اصل خر ہے جب کہ ش اضافی ہے جو آخری حروف پر زور پرنے کی وجہ سے ایک حرف کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ (دیکھے شر خبون) جبکہ بون کے معنی پشتو میں والے کے ہیں۔ اس طرح اس کے معنی گدھے والے کے ہیں اور پشتو میں خشبون گدھوں کے سوداگر کو خرشبون کہا جاتا ہے۔ قدیم زمانے میں آریاؤں میں رواج تھا کہ وہ اپنا انتساب کسی جانور سے کرتی تھیں اور وہ اکثر اسے اپنا جد امجد تصور کرتی تھیں اور اس کی پوجا کیا کرتی تھیں۔ غالباً خر اسی زمانے کی یادگار ہے اور غالباً قدیم زمانے میں افغانستان اور شمالی برصغیر میں گدھے کو مقدس سمجھا جاتا تھا اور اس کی پوجا بھی کی جاتی تھی۔ (دیکھے خر) مگر یہ اقوام مسلمان ہونے کے بعد اس کی اصلیت بھول گئیں، مگر روائیتوں میں یہ کلمہ زندہ رہا اور اس کی اصلیت کچھ سے کچھ ہو گئی اور شجرہ نسب ترتیب دیتے ان کو اپنے مورثوں کی حثیت سے پیش کیا۔