خلل کلام (dysphasia) ایک ایسی گفتار یا کلام ہوتا ہے جس میں ضعف یا خلل پایا جاتا ہے اور وہ اپنے اندر اجزاء میں الفاظ اور خیالات کی صحتمند ترتیب نہیں رکھتی، ساتھ ہی اس میں سے اکثر فہم و سوجھ بوجھ بھی ناپید ہوتی ہے اور اسی وجہ سے اس کو عدم الفہم (incomprehension) قسم کی گفتار بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی وجوہات میں عمومی طور پرکوئی مرکزی ضرر (central lesion) پایا جاتا ہے۔

خلل کلام اور فقر کلام میں فرق ترمیم

اس میں اور فقر کلام (alogia) میں بنیادی طور پر فرق کسی مرکزی حصے (دماغ کے ) میں کوئی ضرر یا چوٹ یا یوں کہ لیں کے زخم کا ہونا یا نا ہونا ہے۔ فقر کلام میں عام طور پر ایسا شیزوفرینیا میں ہونے والی منفی علامات (negative symptoms) کی وجہ سے ہوتا ہے جبکہ خلل کلام میں کوئی مرکزی ضرر پایا جاتا ہے۔

خلل کلام کی وجوہات جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ عام طور پر کوئی نہ کوئی ایسا طبی عارضہ شامل ہوتا ہے جس میں دماغ میں بائیں جانب موجود گفتگو کا ذمہ دار حصہ متاثر ہو گیا ہو جیسے فالج، جبکہ فقر کلام میں وجہ ایک ذھانی (psychotic) عارضہ ہوتا ہے جیسے شیزوفرینیا۔

اوپر کی وضاحت کے بعد ایک بات یہ ذکر کرنا لازمی طب میں کئی علامات ایسی ہوتی ہیں کہ جن کی کوئی ناقابل ترمیم گروہ بندی نہیں کی جا سکتی، یعنی ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ جب کوئی طبی وجہ اس نوبت تک پہنچ جائے کہ جہاں خلل کلام کی کیفیت سمجھ بوجھ کے ناکارہ ہوجانے کی وجہ سے فقر کلام کی کیفیت میں داخل ہو جائے۔ اس کی مزید وضاحت درج ذیل جدول میں کی گئی ہے۔

فقرِ کلام اور خللِ کلام میں فرق
فقرِ کلام خللِ کلام
    1. اسے عموماً ایک ذھانی کیفیت تسلیم کیا جاتا ہے۔
    2. عقلی صعف اور شکستگی خیالات موجود۔
    3. گفتگو سے بچنے کے لیے غیر ارادی طور پر بات مکمل ادا نا کی جائے۔
    4. جملے واضح انداز میں ہو سکتے ہیں مگر خیالات میں غربت۔
      1. اسے عموماً ایک اعصابی کیفیت تسلیم کیا جاتا ہے۔
      2. دماغ میں مرکز سماعت میں کوئی ضرر موجود۔
      3. عصبی شراکے میں خلل کی وجہ سے بات ادا نہیں ہو پاتی۔
      4. جملے نحیف ہو سکتے ہیں مگر ادراک و خیالات ملتے ہیں۔

      مزید دیکھیے ترمیم

      حوالہ جات ترمیم