تعارف کتاب

ترمیم

'خواب لہلہانے لگے' خالد مصطفی کا پہلا شعری مجموعہ ہے جس میں حمد و نعت ، سلام اور نظمیں شامل ہیں لیکن اس مجموعے کا زیادہ حصہ غزلیات پر مشتمل ہے۔ کتاب میں خالد مصطفی کی شاعری پر امجد اسلام امجد ، محسن احسان ، محسن بھوپالی اور شہاب صفدر کی آرا شامل ہیں۔اس شعری مجموعے کا دیباچہ معروف شاعر و کالم نگار محمد اظہار الحق نے لکھا ہے۔ یہ مجموعہ 2004 میں شائع ہوا۔

دیگر معلومات

ترمیم

اس شعری مجموعے کو' قاف ' پبلی کیشنز ڈیرہ اسمعیل خان نے شائع کیا۔ قیمت 120 روپے ہے اور اسے فکشن ہاوس حیدرآباد سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

تاثرات

ترمیم

کلام میں جذبہ کا اخلاص شامل ہو توالفاظ پھول بن کر لہلہانے لگتے ہیں ۔ اس حقیقت کا احساس اس وقت دو چند ہو گیاجب ہم نے خالد مصطفی کے پہلے مجموعہ کلام 'خواب لہلہانے لگے' کا مطالعہ کیا۔ خالد مصطفی سے ہمارا تعارف کم و بیش تین برس قبل ڈیرہ اسمعیل خان کی سر زمین پر ہوا تھا جہاں ایک محفل میں ہمیں خالد مصطفی کو سننے کا اتفاق ہوا۔ انھوں نے اس موقع پر جو سلام پڑھا، ہم اس کے جدید لہجے اور سلیقہ زبان سے بطور خاص متاثر ہوئے۔ ازاں بعد ہمیں ان کا نعتیہ کلام اور غزلیہ شاعری سننے کے مواقع بھی ملے۔ ہمیں یہ اعتراف کرنے میں ہر گز تآمل نہیں ہے کہ ہر بار ہم نے انھیں فکری و فنی طور پر پہلے سے بہتر پایا۔ دوسرے لفظوں میں ان کے شعری سفر کو باقاعدہ ارتقائی مدارج طے کرتے ہوئے محسوس کیا۔ 'خواب لہلہانے لگے' اس شعری سفر کا پہلا پڑاو ہے جو بلاشبہ ان ابعادِ فکر و فن کی سمت نمائی کرتا ہے جن میں الگ شناخت اور انفرادیت کے سنگ ہائے میل نصب ہیں۔ ہمارے خیال میں بیک وقت صاحب سیف و قلم ہونا ایک منفرد اور قابلِ رشک اعزاز ہے جو خال خال تخلیق کاروں کو نصیب ہوتا ہے۔ عساکرِ پاکستان میں معدودے کم ہی سہی ، مگر ایسے شاعر و ادیب ہمیشہ موجود رہے ہیں ، جنھوں نے سیف و قلم ، ہر دو محاذوں پر نا قابل فراموش جوہر دکھائے ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ خالد مصطفی کی شاعری میں ان کی ذات کی جلوہ گری ہے۔ انھوں نے ایک شاعر ہونے کے با وصف ایک سپاہی کے جذبات و احساسات کی اس مہارت سے ترجمانی کی ہے کہ پاک فوج کی اجتماعی باطنی کیفیات مصوّر ہو کر سامنے آگئی ہیں۔ خالد مصطفی نے اپنی غزل کے ذریعے جس ڈکشن سے متعارف کرایا ہے ، وہ ایک یکسر نئی شعری تہذیب ہے۔ انھوں نے اپنے پیشہ ورانہ الفاظ ، تراکیب اور مرکبّات ِلفظی کو غزل کی زبان بنانے کی ایک ایسی تخلیقی کاوش کی ہے ، جس کی ان کے معاصرین میں مثال نہی ملتی۔ اگر وہ اسی طرح سپہ گری کی اصطلاحات کااستعاراتی اور علامتی استعمال کرتے رہے تو یقینا اس بھیڑ میں گم ہو جانے سے بچ جائیں گے جس میں بڑے بڑے تا حال اپنا کھوج لگانے سے قاصرہیں ۔ (پروفیسر قیصر نجفی جیکب لائنز کراچی جولائی2004)

خالدمصطفی کا اوّلین شعری مجموعہ 'خواب لہلہانے لگے' کے عنوان سے قاصر ادبی فورم ڈیرہ اسماعیل خان کی وساطت سے منظر عام پر آیا ہے۔ (خالدمصطفی عسکری ذمہ داریوں کے سلسلے میں وہاں مقیم رہے اور اسی دوران انھیں ڈیرہ کی ادبی محفلوں میں شرکت کا موقع ملا)۔ خالد مصطفی صاحبِ سیف بھی ہیں اور اہلِ قلم بھی ، فنِ حرب اُن کا پیشہ ہے اور علم و ادب سے محبت اُن کا ورثہ ہے۔عسکری زندگی کی کڑی مصروفیات نے بھی اُن کے ادبی ذوق کو متاثر نہیں کیا بلکہ بارُود سے اٹی شاموں اور توپوں کی گھن گرج میں ڈُوبی صبحوں سے انھوں نے نہ صرف اشعار کشید کیے بلکہ ایک نئے رُجحان کی بنیاد رکھی اور ثابت کیا کہ مضافات میں بھی نہ صرف بہترین ادب کی پرداخت کے امکانات موجود ہیں بلکہ بہترین ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ ادبِ عالیہ کی بہترین صورتیں ایسے افراد کی تحریروں میں موجود ہوتی ہیں جو کارزارِ حیات کی تلخیوں سے نبردآزما رہتے ہیں۔ چاہے یہ افراد دُشمن سے پنجہ آزمائی کر رہے ہوں یا تلخئی دوراں سے مئے نایاب کشید کر رہے ہوں ہر دو صورتوں میں ان کا باطنی اظہار شعری و نثری رُوپ میں اثر آفرینی کے نشے سے بھر پور ہوتا ہے۔ وہ سبطِ علی صباؔ ہو، تنویر سپرا ہو، مجید امجد ہو یا کہ نئی نسل کا جواں فکر نمائندہ خالد مصطفی ہو، سب کے ہاں تاریکیوں کی گود سے سورج طلوع کرنے کا فن زندہ ہے۔ بلاشبہ خالد کی شاعری نہ صرف اعتبار کی فہرست میں خوبصورت اضافہ ہے بلکہ عساکرِپاکستان کے ادبی معرکوں میں ایک یاد گار معرکہ ہے۔(ڈاکٹر فہمیدہ تبسم،وفاقی اُردو یونی ورسٹی اسلام آباد 2004)

خالد مصطفی قابلِ مبارکباد اور لائقِ افتخار ہیں کہ عسکری زندگی میں چپ و راست کرتے کرتے اپنی شمشیر کو نیام سے باہر نکالنے کی جراتِ رندانہ کے ساتھ میدانِ سخن میں بڑے طمطراق اور دبدبے سے وارد ہوئے ہیں۔ ان میں پیشے سے لگائو اور ذوق شعری کے ساتھ گہری وابستگی اس بات کی گواہ ہے کہ وہ دونوں کے درمیان توازن برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اپنی شاعری میں لشکر ، سپاہ ، سالار ، صف بندی ، رزم گاہ ، پسپائی او ر للکار جیسی لفظیات کا استعمال کر کے ایک طرف اپنے معزز پیشے کی توقیر بڑھانے کے لیے سرگرم عمل ہیں تو دوسری طرف پسپائی کی مخالفت کرنے پر امیرِ لشکر کے غیظ و غضب کا نشانہ بننے کے لیے بھی سر بکف ہیں۔ وہ دیانتدار ، اصول پسند اور محب وطن انسان ہیں اور اپنے ذاتی غموں اور محرومیوں کو اجتماعی دکھوں اور اندوہنا کیوں کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔ وہ سوزِ جاں کو سوزِ دیگراں کے ساتھ ہم آہنگ کر کے لذّت جاں کے متلاشی ہیں۔ روایت کے ساتھ وابستگی اور جدّت کے ساتھ تعلق ، ماضی کو حال کے ساتھ جوڑنے اور مستقبل کومتعین کرنے کی آبرو مندانہ خواہش ان کے فن کی خصوصیت ہے۔میں اِن کا ایوانِ شعر و سخن میں خوشدلی سے استقبال کرتاہوں۔(پروفیسر محسن احسان ، پشاور)

خالد مصطفی کا کلام میں نے نہایت دل چسپی سے پڑھا۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہ صاحبِ سیف بھی ہیں اور صاحبِ قلم بھی ہیں۔ ان کی شاعری محض شوق کا نتیجہ ہی نہیں بلکہ ان کے ذوق کی آئینہ دار ہے۔خالد مصطفی نے غزلیں بھی کہی ہیں اور نظمیں بھی اور وہ ہر دو اصنافِ سخن میں ایک کامیاب شاعر کے درجے پر فائز ہیں۔ان کی نظمیں یہ کیا ہوا، واپسی اور خود سوزی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کی ایک اور نظم 'کاش' رومان پرور فضا کا پَر تولئے ہوئے ہے۔ خالد مصطفی نے غزل کی روایت یعنی مضمون آفرینی اور زبان و بیان کی پاسداری کو بھی اپنایا ہے اور جدّت طرازی سے بھی کام لیا ہے۔انھوں نے غزل کے معروف مضامین کے علاوہ عہدِ حاضر کے مسائل اور قومی موضوعات کو بھی اپنی غزل میں سمو نے کو فریضے کے طور پرانجام دیا ہے۔ پھر یہ بات بھی قابلِ داد ہے کہ ایسا کرتے ہوئے انھوں نے شعریت کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا ہے۔ ان کی فکر کا یہ پہلو میرے نزدیک انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز حیثیت عطا کرتا ہے۔(محسن بھوپالی محسن منزل،ناظم آبادکراچی،اگست 2003)

حوالہ جات

ترمیم

زندگی کے نئے زاویے از ڈاکٹر فہمیدہ تبسم ، وفاقی اردو یونی ورسٹی اسلام آباد[1]

الفاظ جو پھول بن کر لہلہانے لگے از پروفیسر قیصر نجفی ، کراچی[2]

خواب لہلہانے لگے ۔ مضمون ، محسن بھوپالی کراچی[3]

  1. روزنامہ جنگ ، اسلام آباد ، 25 مارچ 2005
  2. ماہنامہ ، کتاب ، نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد ، اپریل مئی 2005
  3. سہ ماہی ، برگ نو ، ڈیرہ اسمعیل خان ،اپریل 2005