خواجہ ابو احمد ابدال چشتی حسنی حسینی سادات عظام میں سے تھے والد کا نام سلطان فرسنانہ یا فرغانہ تھا اورابو اسحق شامی کے خلیفۂ اکبر تھے۔ آپ کا لقب قدوۃ الدین تھا۔ آپ جمال ظاہری و باطنی کے پیکر تھے۔ آپ فرمانروائے فرغانہ کے بیٹے تھے آپ کا نسب چند واسطوں سے حسن مثنیٰ سے ملتا ہے۔

خواجہ ابو احمد ابدال
معلومات شخصیت
پیدائش 25 جون 874ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
چشت   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 27 مئی 966ء (92 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
چشت   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت افغانستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ خواجہ ابو اسحاق شامی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص خواجہ ابو محمد   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ صوفی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ولادت

ترمیم

6 رمضان260ھ میں چشت میں پیدا ہوئے یہ دور خلیفہ معتصم باللہ کا تھا

نسب نامہ

ترمیم

آپ کا نسب نامہ یوں ہے :
ابو احمد ابدال بن سلطان فرغانہ سید ابراہیم بن سید یحییٰ بن سید حسن بن سید مجدالمعالی المعروف بہ ابوالمعالی بن سید ناصر الدین بن سید عبد السلام بن سید حسن مثنیٰ بن سید اما م حسن مجتبیٰ بن علی ابن ابی طالب۔

سیرت و کردار

ترمیم

آپ بڑے عابد و زاہد تھے۔ پیرو مرشد نے آپ کو بیعت کرنے کے بعد ایک خلوت کدے میں مجاہدے پر لگا دیا تھا۔ چنانچہ آپ سات دن بعد کھانا تناول فرماتے لیکن تین لقموں سے زیادہ کبھی نہ کھاتے اور چالیس دنوں بعد حاجات بشری کے لیے باہر نکلتے۔ آٹھ سال کی محنت شاقہ کے بعد خرقہ خلافت مرحمت ہوا۔

کرامات

ترمیم

آپ کی کرامات کی شہرت مشرق و مغرب میں پھیلی تو علما کو آپ سے حسد ہونے لگا۔ آپ کی مجلس سماع کے خلاف فتویٰ بازی ہونے لگی اور علما نے ایک محضر نامہ تیار کرکے حاکم وقت امیر نصیر کو پیش کیا۔ امیر نے ملک بھر کے علما کی مجلس بلائی جس میں کئی ہزار علما جمع ہوئے خواجہ ابو احمد ابدال کو بھی اس مجلس میں پیش کیا گیا آپ کے ساتھ ایک خادم محمد خدا بندہ بھی تھا جس کو قرآن حکیم میں سے سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص کے علاوہ کچھ بھی یاد نہ تھا۔ جب آپ اپنے خادم کے ہمراہ امیر نصیر کی بلائی ہوئی مجلس علما میں پہنچے تو علما جو پہلے سے یہ طے کیے بیٹھے تھے کہ خواجہ ابو احمد آئیں گے تو علما میں سے کوئی بھی نہ تو ان کا استقبال کرے گا اور نہ ان کی عزت افزائی کی جائے گی، بے ساختہ و بے ارادہ آپ کی تعظیم کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ‘ استقبال کر کے مجلس میں ایک بلند و نمایاں مسند پر بٹھایا اور مسئلہ سماع پر گفتگو شروع کر دی۔ جب علما اپنا نکتہ نظر بیان کر چکے تو آپ نے اپنے خادم محمد خدابندہ کو اشارہ فرمایا کہ ان علمائے کرام کے اعتراضات کے جوابات دو وہ خادم ان پڑھ اور جاہل تھا لیکن ایک نگاہ کرم سے اس پر علم کے دروازے کھلتے چلے گئے اور وہ نہایت فصیح و بلیغ انداز میں قرآن و حدیث سے علمائے کرام کے اعتراضات کا جواب دینے لگا اور بزرگان سلف کے طریقہ کو بھی بیان کرنے لگا۔ علمائے کرام اس خادم کے جوابات سن کر دنگ رہ گئے اور بعض تو شرمندگی سے سرجھکائے بیٹھے رہے۔

وفات

ترمیم

3 جمادی الثانی355ھ کو انتقال فرمایا قصبہ چشت میں دفن ہوئے۔[1][2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. خزینۃ الاصفیاءجلد دوم:صفحہ39 تا 42 مفتی غلام سرور لاہوری
  2. تاریخ مشائخ چشت از محمد زکریا المہاجر المدنی صفحہ 153 تا155ناشر مکتبہ الشیخ کراچی