خواجہ علم الدینسلسلہ چشتیہ لے معروف بزرگ ہیں
اپنے والد گرامی خواجہ سراج الدین کے بعد مسند ارشاد ہر جلوہ گر ہوئے، سیّد محمد گیسودراز سے بھی خلافت حاصل تھی، علوم و فنون سے آراستہ بزرگ تھے اور تمام متوسلین کو بھی اس کی نصیحت فرماتے تھے، روایت ہے کہ ’’آپ بے علم اور ناخواندہ افراد کو علم طریقت سے آگاہ نہ فرماتے تھے، کیوں کہ آپ کا ارشاد تھا کہ ہمارے خاندان میں اگرچہ علم باطن کو فضیلت حاصل ہے لیکن اس کے لیے ظاہری علوم کا حصول لابدی ہے۔ علوم ظاہری سے دینی علوم مراد ہیں، یہ علوم اس قدر تو ضرور آنے چاہئیں کہ قرآن پاک کی عربی آیات اور احادیث پر عبور ہو۔‘‘ [1]اعمال پر بہت تاکید فرماتے مگر احتیاط کو ہمیشہ ملحوظ رکھتے، جو شخص اپنی مرضی سے کسی وظیفے کی اجازت طلب کرتا تو آپ اس کو وہ وظیفہ کرنے کی اجازت نہ دیتے تھے، نوافل کی تاکید فرماتے کہ یہ اس سلسلے کا مدت سے معمول تھا، درود پاک کثرت سے پڑھنے کی تلقین فرماتے، کہا جاتا کہ ’’ شیخ را کرامتے بود، ہر کہ از کافرراں وفا سقاں و منراں یک بار در صحبت اونشتے واز و کلام شنیدے و باہم کلام گشتے از افعالِ مذموم خود متنبہ گشتہ و توبہ نمودہ، مرید اوشدے۔‘‘ [2]

وفات

ترمیم

آپ نے 26 صفر 829ھ وصال فرمایا، اپنے والد کے قریب ہی پیر ان پٹن گجرات میں مدفون ہیں۔ [3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. مخزن چشت: ص 292
  2. تاریخ مشائخ چشت: ص 264 خلیق احمد نظامی
  3. بہارِ چشت، ص 110ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی
  1. https://sialsharif.org/golden-chain.html