خواجہ گل محمد عرف کنگال

خواجہ گل محمد مانسہرہ ہزارہ کے قصبہ مانگلی کے رہنے والے تھے
بچپن سے ہی علوم و معارف کا شوق فرما تھا جب درسیات سے فارغ ہوئے تو باطنی تربیت کے مراکز کی تلاش میں نکلے عقیدت کا خلوص اور تلاش کی صداقت خواجہ عبد الصبور کے آستانے پر لے گئی حاضری دی دل نے گواہی دی کہ یہی وہ منزل ہے جس کی تلاش تھی شیخ طریقت نے نہ صرف دامن پکڑا بلکہ مرکز نگاہ بنا لیا تبلیغِ دین کے مشن پر روانہ ہو گئے اور اس قدر توانائی دکھائی کہ کشمیر کے علاوہ ضلع ہزارہ بھی آپ کی برکات سے جگمگا اٹھا کئی متوسلین خلافت تک پہنچے اور نامور ہوئے آپ کے کئی خلفاء ہیں جن میں عبد الغفور خواجہ عبد المجید خواجہ محمد رفیع کے نام نمایاں ہے خواجہ عبد المجید کا نام سب سے بلند ہے کہ آپ کا فیضان بہت ہےخواجہ گل محمد کا وصال 24 محرم 1198ھ میں ہوا مزار موضع مانگلی شریف علاقہ پکھلی ضلع مانسہرہ میں ہے۔[1] دہلی سے شاہی خاندان سے نسبی تعلق رکھنے والے ایک مشہور بزرگ شہزادہ گل محمد المعروف میاں کنگال صاحب نے اپنی عمر کا آخری حصہ مانگلی ہی میں درس و تدریس اور بیعت و ارشاد کے مشاغل میں گزارا۔آپ پر مرزا مظہر علی جانِ جاناں کی صحبت کا اثر ہوا اور طریقِ امیری ترک کر کے طریق فقیری اختیار کی آپ نے درانیوں کا آخری عہد اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا آپ کا مقبرہ اب بھی مانسہرہ روڈ کے کنارے مانگلی کے اسی مقام پر ہے ۔ جہاں آپ کا تکیہ اور مسجد تھی۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. جمال نقشندڈاکٹر محمد اسحاق قریشی صفحہ 352،جامعہ قادریہ رضویہ فیصل آباد
  2. "آرکائیو کاپی"۔ 12 جنوری 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2021