خولہ بنت ازور
خولہ بنت ازور کا نام تاریخ کے اوراق میں اس طرح محفوظ ہے کہ وہ ایک بہادر خاتون تھیں، جس نے فتوح الشام کی سلسلہ وار جنگوں میں حصہ لیا، زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا، فوجیوں کو پانی پلانا اور بوقت ضرورت مسلح ہو کر دشمن فوجوں کا مقابلہ کرنا ان کی شجاعت اور بہادری کی ناقابل انکار دلیل ہے۔
تعارف
ترمیمخولہ، ازور کی بیٹی تھیں جن کا تعلق بنو سعد سے تھا۔ جنگی صفات کی حامل تھیں اور شاعری کے فن میں بھی کمال حاصل تھا۔
شہرت
ترمیمحالانکہ خولہ بنت ازور کی اپنی شخصیت بھی کچھ کم با کمال نہ تھی لیکن ضرار بن ازور کی بہن ہونے کی وجہ سے بھی مزید شہرت ملی۔ ضرار بن ازور کا ذکر ملک شام کی فتوحات میں نمایاں طور پر ملتا ہے۔
داستانِ شجاعت
ترمیمملک شام کی فتوحات کی مسلسل جنگوں میں سے ایک کا ذکر کچھ اس طرح ہے کہ، مسلم فوج اپنے سپہ سالار اعلیٰ خالد ابن ولید کے حکم کے انتظار میں صف بستہ کھڑی تھی، روم کی فوج کی صفوں کا طول و عرض (لمبائی اور چوڑائی) کسی ٹھاٹھیں مارتا ہوا بپھرے ہوئے سمندر کا نظارہ پیش کر رہی تھی، زمین و آسمان کی ہر شئ پر گویا سکوت طاری تھا کہ نہ جانے مٹھی بھر مسلمانوں کا انجام آخر کیا ہوگا کہ یکا یک کسی سمت سے ایک نقاب پوش عمدہ گھوڑے پر سوار تیز و تند طوفان کی طرح نمودار ہوا اور رومی فوج کی پہلی صف میں قیامت برپا ہو گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے کئی رومی فوجیوں کی گردنیں اس کے تن سے جدا ہو گئیں، خالد بن ولید نے سوچا کہ یہ ضرور ضرار ابن ازور ہیں لیکن پھر سوچا کہ وہ تو اصول و ضوابط کے پابند ہیں ان سے اس غیر اصولی فعل کی توقع نہیں کی جا سکتی، ادھر ضرار ابن ازور کا خیال تھا کہ یہ سیف اللہ خالد ابن ولید کے علاوہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا، جتنا ذہن تھا اتنی ہی سوچ۔ ادھر لوگ سوچ رہے تھے اور ادھر اس شہ سوار نے اپنے گھوڑے کو واپس موڑ کر دوسرا حملہ کیا لوگوں نے ایسی شجاعت دیکھی تو جوش و خروش میں اللہ اکبر کے ایسے فلک شگاف نعرے لگائے جس کی گونج سے زمین و آسمان کا سکوت ہی نہیں ٹوٹا بلکہ اس کی گردش تیز ترین ہو گئی اور جب تیسرا حملہ کرنے کے لیے وہ شہ سوار پلٹا تو مسلمانوں کے جوش و غضب کو روکنا مشکل ہو گیا۔ فورا خالد ابن ولید نے عام حملے کا حکم دے دیا رومی جن کو شاید سانپ سونگھ گیا تھا اس حملے کی تاب نہ لا کر جلد ہی میدان چھوڑ گئے، خالد ابن ولید نے جنگ کے بعد اس شہ سوار کو بلایا تب یہ راز کھلا کہ وہ بہادر شہ سوار ضرار بن ازور کی بہن خولہ بنت ازور ہیں۔ اس کے بعد بھی کئی موقع پر اس مجاہدہ نے کارہائے نمایاں انجام دیے جس میں سے ایک جنگ یرموک بھی ہے۔
وفات
ترمیمخولہ بنت ازور کی وفات خلافت عثمان کے آخری دور میں ہوئی۔[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ابن خلدون 2: 256