خالد بن ولید
ابو سلیمان خالد بن ولید ابن مغیرہ المخزومی عربی: خالد بن الوليد بن المغيرة المخزومي؛ اسلامی پیغمبر محمد کے ایک جلیل القدر صحابی، عظیم سپہ سالار اور تاریخ ساز فاتح تھے۔ اور خلفائے راشدین ابو بکر (د. 632–634) اور عمر (د. 634–644) کے عہد میں عرب فوجی کمانڈر تھے۔ انہوں نے 632ء-633ء میں عرب میں باغی قبائل کے خلاف جنگوں میں اہم کردار ادا کیا۔ ابتدائی مہمات، 633ء-634ء میں ساسانی عراق میں اور 634ء-638ء میں بازنطینی شام کی فتح میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ قریش کے اشرافیہ بنو مخزوم قبیلے کے ایک گھڑ سوار کے طور پر، جس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی شدید مخالفت کی، خالدبن ولید نے 625ء میں جنگ احد کے دوران رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے پیرو کاروں کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ 627ء یا 629ء میں، انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موجودگی میں اسلام قبول کیا،اور انہیں سیف اللہ (' خدا کی تلوار ' ) لقب دیا۔[1] موتہ کی جنگ کے دوران، خالد بن ولید نے بازنطینیوں کے خلاف مسلم فوجوں قیادت کی۔ اور انہوں نے 629-630 میں مکہ کی مسلمانوں کی فتح اور 630ء میں حنین کی جنگ کے دوران مسلم فوج کے تحت بدویوں کی قیادت کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد، خالد بن ولید کو نجد اور یمامہ میں مقرر کیا گیا تھا تاکہ ان عرب قبائل کو دبایا جائے جو نوزائیدہ مسلم ریاست کے مخالف تھے۔ اس مہم کا اختتام بالترتیب 632 میں جنگ بزاخہ اور 633ء میں یمامہ کی جنگ میں عرب باغی رہنماؤں طلیحہ بن خویلد اور مسیلمہ کذاب پر خالدبن ولید کی فتح پر ہوا۔
خالد بن ولید سیف اللہ، الله کی تلوار | |
---|---|
![]() | |
پیدائش | مکہ |
وفات | 642ء مدینہ منورہ یا حمص، خلافت راشدہ |
ممکنہ تدفین کی جگہ | مسجد خالد بن ولید، حمص، سوریہ |
وفاداری | قریش (625ء – 627ء یا 629ء) محمد بن عبد اللہ (627ء یا 629ء– 632ء) خلافت راشدہ (632ء – 638ء) |
سروس/ | خلافت راشدہ کی فوج |
سالہائے فعالیت | 629ء–638ء |
آرمی عہدہ |
|
مقابلے/جنگیں |
|
شریک حیات | اسماء بنت انس بن مدرک ام تمیم بنت منھال |
اولاد | سلیمان عبد الرحمٰن مہاجر |
اس کے بعد خالد بن ولید نے عراق میں فرات کی وادی میں عیسائی عرب قبائل اور ساسانی سلطنت فوجوں کے خلاف حرکت میں آئے۔ انہیں ابوبکر نے شام میں مسلم فوجوں کی کمان کرنے کے لیے دوبارہ تفویض کیا تھا۔ جنگ اجنادین (634)، جنگ فحل (634 یا 635)، محاصرہ دمشق (634-635) اور جنگ یرموک (636) میں خالدبن ولید کی قیادت میں بازنطینیوں کے خلاف فیصلہ کن فتوحات حاصل کیں۔ جس کے نتیجے میں، راشدین فوج نے لیونٹ کا بیشتر حصہ فتح کرلیا۔ خالدبن ولید کو بعد ازاں عمر بن خطاب کے ذریعے فوج کی اعلیٰ کمان سے ہٹا دیا گیا۔ خالد نے اپنے جانشین ابو عبیدہ بن جراح کے ماتحت حمص اور حلب کے محاصروں اور جنگ حاضر میں خدمات انجام دیں۔ اس جنگوں میں شہنشاہ ہرقل کے ماتحت شام سے سامراجی بازنطینی فوجوں نے پسپائی اختیار کی۔ اس فتح کے بعد عمر بن خطاب نے خالدبن ولید کو 638ء میں جند قنسرین کی گورنری سے برطرف کر دیا۔ ان کا انتقال مدینہ منورہ یا حمص میں 642 ءمیں ہوا۔
انہیں عام طور پر مورخین ابتدائی اسلامی دور کے سب سے تجربہ کار اور کامیاب جرنیلوں میں سے ایک تصور کرتے ہیں۔ اسلامی روایت خالدبن ولید کو ان کی جنگی حکمت عملیوں اور امسلمانوں کی فتوحات کی موثر قیادت کا سہرا دیتی ہے۔ ابو سلیمان خالد بن ولید تاریخ کے ان چند فوجی کمانڈروں میں سے ایک ہیں۔ جنہوں نے ساری زندگی جنگ میں شکست نہیں کھائی۔ خالد بازنطینی رومی سلطنت، فارسی ساسانی سلطنت اور ان کے اتحادیوں کے اعلیٰ افواج کے خلاف سو سے زائد لڑائیوں میں ناقابل شکست رہے۔
نسب اور ابتدائی زندگی
خالد کی کنیت ابو سلیمان اور سیف اللہ (الله کی تلوار) تھا۔ سلسلہ نسب یہ ہے۔ خالد بن ولید بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمرو بن مخزوم مخزومی۔ ماں کا نام لبانہ الصغریٰ بنت حارث تھا جو ام المومنین حضرت میمونہ اور لبابہ بنت حارث، والدہ عبد اللہ بن عباس کی ہمشیرہ تھیں۔ سلسلہ نسب ساتویں پشت (یعنی مرہ بن کعب بن لوی) میں حضرت ابو بکر اور رسول الله سے جا ملتا ہے۔ خالد کے ولید بن مغیرہ قریش کے شرفا اور سرداروں میں سے تھے اور مکے کے بڑے دولت مندوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ خالد کا قبیلہ شجاعات و جنگ جوئی میں بھی ممتاز اور نامور تھا۔ قبیلہ قریش کی مذہبی قیادت بنو ہاشم اور بنو عبد الدار، سیاسی قیادت بنو امیہ اور عسکری قیادت خالد کے قبیلے، بنو مخزوم کے پاس تھی۔[2]
خالد کی ولادت کی صحیح تاریخ کے بارے میں تاریخ کی کسی بھی کتاب میں ذکر نہیں ملتا ہے۔ اے آئی اکرم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بچپن میں ایک دفعہ خالد بن ولید اور عمر بن خطاب نے کشتی لڑی جس میں خالد نے عمر کی پنڈلی توڑ ڈالی جو کافی علاج کے بعد ٹھیک ہو گئی۔[3] اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں ہم عمر تھے۔ خالد کے والد ولید بن مغیرہ تھے، جو حجاز کے مکہ میں مقامی تنازعات کے ثالث تھے۔ خالد کا خاندان زمانہ جاہلیت سے معزز چلا آتا تھا، فوج کی سپہ سالاری اور فوجی کیمپ کے انتظام کا عہدہ ان ہی کے خاندان میں تھا۔ ظہور اسلام کے وقت خالد اس عہدہ پر ممتاز تھے۔[4]
پرورش
قریش کے شرفاء کے دستور کے مطابق خالد کو صحرا میں بھیجا گیا۔ جب وہ پانچ یا چھ سال کے تھے تو وہ اپنے والدین کے پاس واپس آئے۔ خالدبن ولید بچپن میں چیچک سے بیمار ہو گئے تھے، اس بیماری کی وجہ سے ان کے بائیں گال پر کچھ نشانات رہ گئے۔ خالد نے دیگر امراء کے بیٹوں کی طرح گھڑ سواری سیکھی اور کم عمری سے ہی گھڑ سواری میں کا مظاہرہ کیا۔ [5]
حلیہ
خالدبن ولید کا قد لمبا اور مضبوط، چہرہ سفیدی کی طرف مائل، [6] اور گھنی داڑھی تھی۔ [7] ان کی شکل عمر بن الخطاب سے بہت ملتی جلتی تھی۔ [6]
خالد بن ولید دور نبوی میں
اسلام قبول کرنے سے پہلے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے مدینہ ہجرت کے بعد مسلمانوں اور قریش کے درمیان بہت سی لڑائیاں ہوئیں۔ خالد بن ولید نے بدر کی جنگ نہیں لڑی تھی،بدر کی جنگ میں خالد بن کے بھائی الولید مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہو گئے۔ خالدبن ولید اور ان کے بھائی ہشام یثرب میں الولید کو چھڑانے کے لیے گئے، [8] تاہم، فدیہ اور رہائی کے بعد الولید نے اسلام قبول کر لیا اور یثرب ہی رہے۔ [9] غزوہ احد مسلمانوں اور قریش کے درمیان ہوئی جس میں [10] [11] خالد بن ولید نے قریش کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑی،خالد بن ولید نے بہترین حکمت عملی سے جنگ کا رخ موڑنے میں کامیاب ہوئے اور انہوں نے مسلمان تیر اندازوں کی غلطی کا فائدہ اٹھایا، جب جنگ کے آغاز میں مسلمان تیراندازوں کی غفلت کی وجہ سے اپنی برتری کے بعد مال غنیمت جمع کرنے کے لیے پہاڑ سے نکلے۔ [12] خالد نے اس غلطی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کی فوج کے عقب میں اپنے گھڑ سواروں کے ساتھ حملہ کر دیا جس سے مسلمانوں کو شکست ہوئی اور قریش کی شکست کو فتح میں بدل دیا۔ [13] [14]
قبولِ اسلام
حضرت خالدؓ بن ولید کے قبولِ اسلام سے قبل بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کو بہت پسند فرمایا کرتے تھے۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے حضرت خالدؓ کی تعریف کی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرمایا کرتے کہ جس شخص میں یہ خصوصیات ہوں گی وہ ضرور اسلام قبول کرے گا۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت عمرؓ کے بارے میں قبولِ اسلام کی دعا فرمائی تھی، اسی طرح خواہش تھی کہ حضرت خالدؓ بھی اسلام قبول کر لیں۔آخر یہی ہوا 8ھ ہجری میں فتح مکہ سے پہلے حضرت خالد بن ولیدؓ، حضرت عمرو بن العاصؓ اور حضرت عثمان بن طلحہؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس تشریف لائے اور اسلام قبول کر لیا۔ تب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بہت خوشی سے فرمایا کہ اے لوگو! مکہ نے اپنے جگر گوشے تمہارے دامن میں ڈال دیئے ہیں۔ قبولِ اسلام کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت خالدؓبن ولید پر خاص نگاہِ کرم فرمائی اور ’’سیف اللہ‘‘ کا لقب عطا فرمایا۔ حارث بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو کہتے سنا ’’اسلام قبول کرنے سے پہلے مَیں تقریباً ہر معرکے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے نئے عزم و ولولے کے ساتھ آتا لیکن ہر مرتبہ کچھ اس طرح میرے دِل پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا رُعب و دبدبہ طاری ہوتا کہ میرے حوصلے پست ہو جاتے اور مجھے یوں محسوس ہوتا کہ جیسے کوئی غیبی طاقت اُنؐ کی حفاظت فرما رہی ہے۔ پس مجھے یقین ہو گیا کہ یہ لوگ پوری دنیا پر غالب آ جائیں گے۔‘‘ [15][16][17][18][1]
سیف اللہ کا لقب
8 ہجری میں، رسول نے غسانیوں سے لڑنے کے لیے ایک لشکر کو حکم دیا، جب رومیوں کےگورنر شربیل بن عمرو الغسانی نے حارث بن عمیر العزدی، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد تھے، کو بصرہ کے پاس روکا اور اسے قتل کر دیا۔ [19] نئے اسلام قبول کرنے والے خالدبن ولید نے تین ہزار جنگجوؤں کی فوج میں شمولیت اختیار کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ کو لشکر کی قیادت کے لیے منتخب کیا، اگر وہ مارے جائیں تو جعفر بن ابی طالب ان کے بعد ان کے بعد عبداللہ بن رواحہ کو۔ اور اگر تینوں کے قتل ہو جائیں تو مسلمان ان میں سے ایک سردار کا انتخاب کریں گے۔ [19] موتہ پہنچنے پر مسلمانوں نے اپنے آپ کو دو لاکھ جنگجوؤں کی فوج کے سامنے پایا، جن میں سے آدھے رومی تھے اور باقی آدھے غسانی تھے۔ مسلمانوں کو اس صورت حال سے تعجب ہوا اور وہ اپنے معاملات میں مشورہ کرنے کے لیے معان میں دو راتیں ٹھہرے۔ کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ وہ نئے احکامات کا انتظار کریں۔ ابن رواحہ نے اس کی مخالفت کی، اور مسلمانوں کو جنگ پر آمادہ کیا۔ [20] لڑائی شروع ہوئی، اور مسلمانوں کو ایک مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ تینوں سردار یکے بعد دیگرے مارے گئے، پھر مسلمانوں نے خالدبن ولید کو جنگ میں ان کی قیادت کے لیے منتخب کیا۔ دن کے باقی حصے میں فوج کو روکا گیا، اور رات کو خالد میمنہ نے اپنی فوج کو بائیں طرف اور بائیں کو دائیں طرف منتقل کیا۔ پھر انہوں نے ایک گروہ کو حکم دیا کہ وہ خاک اٹھائیں اور صبح تک لشکر کے پیچھے ہٹنے کے لیے شور مچائیں۔ صبح کے وقت رومی فوج اور غسانیوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کے جھنڈوں میں تبدیلی آ گئی ، اس لیے انہوں نے سمجھا کہ مسلمانوں کو نئی کمک پہنچ گئی ہے۔ اس طرح خالدبن ولید فوج کو مکمل تباہی سے بچانے میں کامیاب ہوگئے۔ [21] خالدؓ جنگ موتہ میں بہادری سے لڑے اور اس وقت ان کے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ گئیں۔ جب وہ یثرب واپس آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعریف کی اور انہیں سیف اللہ ، (خدا کی اتاری ہوئی تلوار) کہا۔[22]
ابوبکر و عمر کے دور میں
حضرت خالد کا زہر پینا
حضرت خالد بن ولیدؓ تاریخ اسلام کے ناقابل شکست سپہ سالار تھے۔آپؓ نے جنگوں میں اپنے سے کئی گنا طاقتور اور بڑے لشکروں کو شکست فاش سے دوچار کیا۔بارہویں صدی کے ایک مورخ ابن عساکر نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ جنگ میں دشمن کو زیر کرنے کے لئے حضرت خالد بن ولید ؓ نے زہر پی لیا تھا ،اللہ کے حکم سے آپ ؓ پر زہر کا اثر نہ ہوا۔اس واقعہ کا تذکرہ روایات کے مطابق کچھ یوں ہے کہ اسلامی لشکر نے حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں کئی شب و روز عیسائیوں کے ایک قلعہ کا محاصرہ کر رکھا تھا اور لڑائی اس لئے نہ چھیڑی کہ شائد یہ لوگ راہ راست پر آجائیں ۔
ادھر عیسائیوں نے قلعہ پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے ایک ترکیب سوچی۔انھوں نے ایک ذہین اور معمر پادری عمرو بن عبدالمسیح کو حضرت خالد بن ولید ؓ کے پاس بات چیت کے لئے بھیجا۔
پادری نے چالاکی سے آپ ؓ کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپؓ فی الوقت ہمارے قلعہ کا محاصرہ اٹھا لیں،اگر آپؓ نے دوسرے قلعے فتح کرلئے تو ہم اپنے قلعہ کا قبضہ بغیر کسی لڑائی اور مزاحمت کے آپؓ کے حوالے کردیں گے حضرت خالد بن ولید ؓنے فرمایا کہ نہیں ہم پہلے اسی قلعہ کو فتح کریں گے اور پھر بعد میں کسی دوسرے قلعے کا رخ کریں گے۔ یہ سن کر بوڑھے پادری نے اپنے پاس سے زہر کی ایک پڑیا نکالی اور بولا اگر آپؓ ہمارے قلعے کا محاصرہ ابھی ختم نہیں کریں گے تو میں اس پڑیا کا زہر کھا کر خودکشی کر لوں گا اورپھر میرا خون تمہاری گردن پر ہو گا۔حضرت خالد بن ولید ؓ نے فرمایا ناممکن ہے کہ تیری موت نہ آئی ہو اور تو مر جائے۔
بوڑھا پادری بولا اگر تم ایسا یقین رکھتے ہے تو لو پھر یہ زہر کی پڑیا پھانک کر دکھاؤ۔ یہ سن کر حضرت خالد بن ولیدؓنے زہر کی پڑیا پادری کے ہاتھوں سے لی اور یہ دعا(بِسْمِ اللہ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاء ِ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم)پڑھ کر زہر کی پڑیا پھانک لی اور اوپر سے پانی پی لیا۔ اب تو بوڑھے پادری کو مکمل یقین ہوگیاتھا کہ آپ ؓ اس خطرناک زہرکو پی کر چند لمحوں میں موت کی وادی میں پہنچ جائیں گے ،یوں کسی نہ کسی طرح قلعہ کا محاصرہ بھی ختم ہو جائے گا۔زہر کا اثر دیکھنے کے لئے پادری غور سے ٹکٹکی باندھے آپؓ کو دیکھنے لگا۔آپؓ کے بدن سے پسینہ نمودار ہونے لگا،پادری دل ہی دل میں خوش ہونے لگا کہ زہر کا اثر شروع ہوچکا ہے لیکن اللہ نے آپؓ کو زہرکی ہلاکت سے محفوظ رکھا،آپؓ کے بدن سے چند منٹ پسینہ نمودار ہونے کے بعد آپؓ کی کیفیت بالکل نارمل ہوگئی۔
پادری نے اپنی آنکھوں کے سامنے حضرت خالد بن ولید ؓ کا جذبہ ایمانی دیکھا تو حیران پریشان رہ گیا۔حضرت خالد بن ولیدؓ نے پادری سے مخاطب ہو کر فرمایا دیکھ لو ، اگر موت نہ آئی ہو تو زہر بھی کچھ نہیں بگاڑ پاتا۔'
پادری کوئی جواب دئیے بغیر آپؓ کے پاس سے واپس قلعہ بھاگ کھڑا ہوا اور اپنی قوم سے کہا۔ اے لوگو، میں ایسی قوم سے مل کر آیا ہوں، خدا تعالیٰ کی قسم ،اسے مرنا تو آتا ہی نہیں، وہ صرف مارنا ہی جانتے ہیں۔ جتنا زہر ان کے ایک آدمی نے کھا لیا ہے۔ اگر اتنا پانی میں ملا کر ہم تمام اہل قلعہ پی لیتے تو یقیناََ مر جاتے مگر اس آدمی کا مرنا تو درکنار ، وہ بے ہوش بھی نہیں ہوا، میری مانو تو قلعہ اس کے حوالے کر دو اور ان سے لڑائی نہ کرو۔معمر پادری کی بات سن کر عیسائیوں نے وہ قلعہ بغیر لڑائی کے حضرت خالد بن ولیدؓ کے حوالے کردیا۔مسلمانوں کو یہ فتح بغیر کسی جنگ کے صرف حضرت خالد بن ولیدؓ کی قوت ایمانی کی بدولت حاصل ہوئی تھی ۔
حضرت خالد اور جُرجہ نامی سپہ سالار کی گفتگو
علامہ ابن کثیر نے البدایۃ والنہایہ جلد نمبر ٧ اور صفحہ نمبر ١٦ میں ایک دلچسپ اور ایمان افروز واقعہ ذکر کیا ہے : جب جنگ یرموک میں دونوں لشکر آمنے سامنے صف آراء ہوئے تو رومیوں کا ایک سپہ سالار جرجہ آگے بڑھا اور حضرت خالد کو دعوت مبارزت دی۔ جب دونوں شاہسوار ایک دوسرے کے قریب آگئے تو جرجہ کہنے لگا خالد میں جرجہ ہوں تم سے کچھ سوال کرنا چاہتاہوں جنابِ خالد فرمانے لگے ہاں پوچھو جرجہ کہنے لگا خالد جو بہادر انسان ہوتا ہے۔ وہ کبھی دھوکہ نہیں دیتا اور سچا انسان کبھی جھوٹ نہیں بولتا پھر دونوں کے درمیان مکالمہ شروع ہوا جسکا خلاصہ کچھ یوں ہے : جرجہ : خالد کیا تمہارے نبیﷺ پر آسمان سے کوئی تلوار نازل ہوئی جو انہوں نے تمہیں دی لہذا اب جس لشکر میں بھی تم ہوتے وہ کبھی شکست نہیں کھاتا؟ خالد : نہیں ایسی کوئی بات نہیں ۔ جرجہ : خالد تو پھر تمہیں سیف اللہ کیوں کہا جاتا ہے ؟ خالد : جب میں اسلام لایا تھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے دعا کی تھی اور فرمایا تھا کہ تم اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہو جس کو اللہ نے مشرکین پر سونت رکھا ہے ۔ اسی وجہ سے میرا لقب سیف اللہ پڑ گیا ہے جرجہ : تم کس بات کی دعوت دینے نکلے ہو ؟ خالد : ہم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں ۔ جرجہ : اگر کوئی دعوت ماننے سے انکار کردے تو ؟ خالد : اس کے لیے جزیہ دینا ضروری ہے ۔ جرجہ : اگر جزیہ سے بھی انکار کردے تو ؟ خالد : پھر ہم اسے جنگ کے لیے للکارتےہیں ۔ جرجہ : اگر اب کوئی تمہارے ساتھ شامل ہو تو اس کا درجہ کیا ہوگا ؟ خالد : ہم میں سب کا ایک ہی درجہ ہے امیر ، غریب سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد کچھ مزید ایک دو سوالوں کے بعد اس نےکہا مجھے بھی اسلام سکھا دو اور وہ حضرت خالد کے ساتھ چل دیا اور مسلمان لشکر میں آگیا حضرت خالد نے اس کو اسلام کی بنیادی باتیں بتائیں اور اس نے اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت خالد کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کی اور مسلمان لشکر میں شامل ہو کر خوب بہادری سے جنگ لڑی اور اسی جنگ میں زخمی ہو کر شہید ہوگیا۔
جنگِ موتہٓ
جو معرکے حضرت خالدؓ بن ولید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم اور اجازت سے لڑے ان میں ایک جنگِ موتہ تھی۔ جس میں حضرت خالدؓ بن ولید مسلمان ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ایک سپاہی کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ جنگ ِ موتہ کے بارے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ جب حضرت زیدؓ بن حارثہ نے لشکر کی قیادت کی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پہلے ہی بشارت دے دی تھی کہ اگر زیدؓ شہید ہو جائیں تو جعفر بن ابی طالبؓ عَلم سنبھال لیں، اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہؓ کو امیر بنا لیں اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو مسلمان اپنے میں سے کسی کو امیر منتخب کر لیں۔‘‘ اسلامی لشکر موتہ پہنچا تو شاہِ روم ہرقل ایک لاکھ جنگجوؤں کے لشکر کے ساتھ مسلمانوں کا منتظر تھا۔ گھمسان کی جنگ ہوئی اور مسلمانوں کے تینوں سپہ سالار شہید ہو گئے۔ مجاہدین کے لیے یہ مایوس کُن صورتِ حال تھی۔ میدانِ جنگ پر رومیوں کا قبضہ تھا، ایسے میں مسلمانوں نے فوج کے ایک سپاہی خالدؓ بن ولید کو اپنا سپہ سالار منتخب کیا اور جھنڈا اُن کے ہاتھ میں تھما دیا۔ حضرت خالدؓ بن ولید نے میدانِ جنگ میں ایک پُرجوش اور ولولہ انگیز تقریر کی اور اچانک رومیوں پر بھرپور حملہ کر دیا۔ رومی اس اچانک اور بھرپور حملے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔ چنانچہ وہ بدحواس ہو گئے اور شکست اُن کا مقدر بن گئی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت خالدؓ نے فرمایا ’’جنگ ِ موتہ کے روز میرے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹ گئیں۔ پھر میرے ہاتھ میں صرف ایک یمنی بانا (چھوٹی تلوار) باقی بچی۔‘‘ اُدھر مدینہ میں جنگ ِ موتہ ہی کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وحی کی بنا پر فرمایا ’’جھنڈا زیدؓ نے لیا اور وہ شہید کر دیے گئے، پھر جعفرؓ نے لیا اور وہ بھی شہید کر دیے گئے، پھر ابن ِ رواحہؓ نے لیا اور وہ بھی شہید کر دیے گئے (اس دَوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آنکھیں اشک بار تھیں) یہاں تک کہ جھنڈا اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے لے لیا (اور ایسی جنگ لڑی کہ) اللہ نے ان پر فتح عطا فرمائی‘‘۔ اسی دن سے حضرت خالدؓ بن ولید کا لقب ’’سیف اللہ‘‘ ہو گیا۔ [23] نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا ’’یہ اللہ کا بندہ بھی کیا خوب آدمی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے جسے اس نے کفار اور منافقین پر کھینچا ہے۔‘‘
فتح مکہ
سیّدنا خالد بن ولیدؓ کے اسلام قبول کرنے کے بعد دوسرا اہم واقعہ فتح مکہ پیش آیا۔ جس میں باقاعدہ فخر امم،سرورِ انبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سیّدنا خالدؓ بن ولیدکو ایک دستے کا امیر مقرر کیا۔ 20 رمضان المبارک 8ھ ہجری کو فتح مکہ کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وادی ذی طویٰ میں لشکر کی تربیت و تقسیم فرمائی۔ حضرت خالدؓ بن ولید کو بنو سلیم، بنوغفار، بنوخزیمہ اور کچھ دوسرے عرب قبائل کی قیادت کرتے ہوئے مکے کے بالائی علاقے کی جانب سے شہر میں داخل ہونے کا حکم دیا اور فرمایا ’’اگر قریش میں سے کوئی آڑے آئے تو اپنی تلوار کے جوہر دکھانے کی اجازت ہے اور اگر کوئی مزاحمت نہ ہو تو اپنی جانب سے کسی سے مقابلہ کرنے میں پہل نہ کرنا۔ ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہم بغیر خون بہائے پُرامن طریقے سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوں اور اس مبارک شہر کی حرمت کو پامال کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔‘‘ حضرت خالدؓ اور اُن کے رفقا کی راہ میں جو مشرک آیا اُسے جہنم رسید کرتے کوہِ صفا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے جا ملے۔ اس موقعہ پر حضرت خالدؓ بن ولید سے جھڑپ میں 12مشرک مارے گئے جب کہ دو صحابیؓ شہید ہوئے وہ بھی راستہ بھول کر لشکر سے جدا ہو جانے کی وجہ سے۔ فتح مکہ کو ابھی پانچ دن ہی گزرے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت خالدؓ کو تیس مجاہدین کے لشکر کا امیر بنا کر مقام نُخلہ کی جانب روانہ کیا تاکہ وہاں مشرکین عرب کے ’’عزیٰ‘‘ نامی بُت کو گرا سکیں۔ عزیٰ قریش ِمکہ کا ایک مشہور اور بڑا بت تھا جس کی پوجا بڑے اہتمام کے ساتھ کی جاتی تھی۔ جذبہ توحید سے سرشار حضرت خالدؓ بن ولید نے بت کے پرخچے اُڑا دیئے۔
غزوات نبوی میں شرکت
غزوہ حنین
ماہِ شوال 8ھ ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے قبیلہ ہوازن کی سرکوبی کے لیے مکّہ مکرّمہ سے وادیٔ حنین کی جانب کوچ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ بارہ ہزار جنگجو تھے۔ 10ہزار وہ جو فتح مکہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہمراہ تھے اور دو ہزار مکہ کے نو مسلم۔ حضرت خالد بن ولیدؓ بھی ایک لشکر کے سالار کی حیثیت سے ساتھ تھے۔ اللہ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی اور بہت سا مالِ غنیمت ہاتھ آیا۔ غزوۂ حنین کے بہت سے شکست خوردہ مشرک طائف میں قلعہ بند ہو گئے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ کو ایک ہزار مجاہدین کے لشکر کا امیر بنا کر ہراول دستے کے طور پر طائف روانہ کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بقیہ فوج کے ساتھ خود بھی طائف کا رُخ فرمایا۔
غزوۂ طائف
ہوازن کی شکست خوردہ فوج طائف جا کر پناہ گزیں ہو گئی اور جنگ کی تیاریاں کرنے لگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وہاں پہنچ کر ان سے جنگ کرنے کاارادہ کیا۔ سیّدنا خالدؓ زخمی ہونے کے باوجود جنگ میں شامل تھے اور بدستور لشکر کے افسر تھے۔ اسلامی لشکر کی تعداد بارہ ہزار تھی۔ طائف پہنچ کر قلعے کا محاصرہ کر لیا گیا اور سیّدنا خالدؓ باربار کفار کو نعرہ لگا کر مقابلے کے لیے دعوت دیتے تھے۔ لیکن کوئی جواب نہیں دیتا تھا۔ باربار کے چیلنج کے بعد قبیلہ ثقیف کے سردار عبدیالیل نے جواب دیا ’’ہم میں سے کوئی شخص تمہارے مقابلے کے لیے نہیں اُترے گا ہم بدستور قلعے میں مقیم رہیں گے کیونکہ ہمارے پاس اتنا سامان خوردونوش موجود ہے جو دوسال کے لیے کافی ہے۔‘‘ چونکہ طائف والوں سے کوئی خطرہ نہ تھا لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے محاصرہ اٹھا لیا۔'
غزوہ تبوک
تبوک میں دشمن کو مسلمانوں کے مقابل ہونے کی ہمت نہ پڑی بلکہ آس پاس کے عیسائی حاکموں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اطاعت قبول کر لی۔ پاس کی ایک ریاست دومۃ الجندل کا عرب حاکم اکیدر قیصر روم کے اثر میں تھا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت خالدؓ بن ولید کو چار سو سوار دے کر اس کو مطیع کرنے کے لیے بھیجا۔ حضرت خالدؓ نے اکیدر کو شکست دی اور گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کو چند شرائط پر معافی دے دی۔ اس مُہم کے سلسلے میں مسلمانوں کو جن تکلیفوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ان کی بنا پر اس کو جیش العُسرۃ اور غزوۃ العُسرۃ بھی کہا جاتا ہے۔'
جنگِ یمامہ
ذی الحجہ 11ھ کو خلیفۂ اوّل سیّدنا صدیق اکبرؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو تیرہ ہزار مجاہدین کے لشکر کا امیر بنا کر نبوت کے جھوٹے دعوے دار مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ مسیلمہ اپنے قبیلے ربیعہ کے چالیس ہزار جنگجوؤں کے لشکر کے ساتھ’’یمامہ‘‘ کے مقام پر مسلمانوں کے مدّ ِمقابل آیا۔ اس موقعے پر حضرت خالد بن ولیدؓ نے بہترین جنگی حکمت ِ عملی، سیاسی بصیرت اور ولولہ انگیز تقاریر کے ذریعے مجاہدین میں شوقِ شہادت کو بڑھاوا دیا اور پھر بپھرے شیر کی طرح مسیلمہ کی فوج کے پرخچے اُڑا دیئے۔ حضرت حمزہؓ کے قاتل وحشی نے اپنا نیزہ مسیلمہ کے سینے میں اُتار کر اُسے جہنم رسید کر دیا۔
حضرت خالدؓ عراق اور ایران میں
ابھی حضرت خالدؓ بن ولید جنگ ِ یمامہ سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ حضرت صدیق ِ اکبرؓ نے آپؓ کو عراق اور ایران کی جانب پیش قدمی کا حکم صادر فرما دیا۔ چنانچہ محرم 12ھ میں حضرت خالدؓ عراق کے علاقے ’’ابلہ‘‘ کو فتح کرتے ہوئے ایرانی صوبے ’’حضیر‘‘ جا پہنچے۔ اس صوبہ کا حاکم ہرمز نہایت دلیر جنگجو سردار تھا۔ جس کی دھاک عرب، عراق، ایران اور ہندوستان تک بیٹھی ہوئی تھی کیونکہ اُس کے جنگی بیڑے ہندوستان پر بھی حملہ آور ہو چکے تھے۔ ہرمز کی مدد کے لیے شاہِ ایران نے مزید ایک لاکھ فوجی بھیج دئیے جب کہ اسلامی لشکر صرف تیرہ ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا۔ یہاں حضرت خالدؓ نے ایک اور جنگی حکمت ِ عملی اپنائی اور سب سے پہلے خود میدانِ جنگ میں گئے۔ اپنے گھوڑے کو ہرمز کے خیمے کے پاس کھڑا کر کے اُسے مقابلے کی دعوت دی۔ وہ باہر نکلا، دونوں میں دوبدو لڑائی ہوئی اور پھر حضرت خالدؓ نے اُسے زمین پر گرا دیا اور اُس کے سینے پر سوار ہو کر سر تن سے جدا کر دیا۔ یہ سب اتنا اچانک اور تیزی سے ہوا کہ ایرانی فوج بدحواس ہو کر بھاگ نکلی۔ اس جنگ میں بہت زیادہ مالِ غنیمت اور ہیرے جواہرات مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔ حضرت خالدؓ نے عراق میں دو سال قیام کیا۔ فوج اور سامانِ حرب کی قلّت کے باوجود ان دو برسوں میں 15جنگیں لڑیں اور سرزمین ِ عراق کو دشمنوں سے پاک کر دیا۔
جنگِ یرموک
حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ کی قیادت میں لڑی جانے والی اس جنگ میں رومی جرنیل ہامان دو لاکھ چالیس ہزار کا لشکر لے کر میدان میں اُترا جب کہ مجاہدین کی تعداد چالیس ہزار تھی۔ مسلمان نہایت جَم کر لڑے اور فتح نصیب ہوئی۔ اس جنگ میں ایک لاکھ تیس ہزار رومی مارے گئے۔
دمشق کی جنگ
حضرت خالدؓ کی قیادت میں مسلمانوں نے دمشق کو فتح کر لیا اور مدینہ میں خلیفۃ الرسول حضرت ابو بکر صدیقؓ کی وفات کے بعد امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ ان کی جگہ خلیفہ مقرر ہوئے۔ دمشق کی جنگ کے دوران ہی حضرت عمرؓ نے ایک مکتوب حضرت ابو عبیدہؓ کو لکھا جس میں حضرت خالدؓ کی کمانڈر انچیف کی حیثیت سے معزولی کے احکامات تھے اور حکم دیا گیا کہ حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ مسلمانوں کے نئے کمانڈر ہوں گے۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ کے حکم کی تعمیل کی گئی اور آپؓ کو معزول کر کے عام سپاہی بنایا جا رہا تھا تو آپؓ اس حکم کو سر آنکھوں پر تسلیم کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’اگر میں عمرؓ کے لیے لڑتا تھا تو اب نہیں لڑوں گا لیکن اگر میں اللہ ربّ العزت کے لیے لڑتا تھا تو اسی طرح ایک سپاہی کی حیثیت سے بھی اپنی ذمہ داریاں سر انجام دیتا رہوں گا۔‘‘ اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ خالدؓ کی تلوار اسی طرح چلتی رہی جس طرح ایک مجاہد اور اللہ کے سپاہی کی تلوار چلتی ہے۔ حضرت خالدؓ کی معزولی کا مسلمانوں کو شدید دکھ تھا لیکن حضرت عمرؓ کے پیش نظر ایک حکمت تھی کہ لوگوں کو شاید یہ خیال ہونے لگا تھا کہ مسلمانوں کو فتح خالدؓ کی وجہ سے ہوتی ہے اور ان کا اللہ پر توکل اور یقین کمزور پڑ رہا ہے اس لیے انہوں نے یہ قدم اٹھایا۔ سیّدنا عمرؓ لوگوں کو یہ دکھانا چاہتے تھے کہ فتح بس اللہ کی مدد سے ہوتی ہے۔ خالدؓ کی شجاعت اور بہادری پر نہیں۔ اللہ ہر حال میں اپنے دین کی حفاظت کرتا ہے چاہے حضرت خالدؓ ہوں یا نہ ہوں۔ حضور مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس بھی یہی فرماتے ہیں کہ کامیابی یا ناکامی کے لیے کسی سیاست دان یا کسی سربراہ کو خدا نہیں بنا لینا چاہیے بلکہ صرف اللہ پاک پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کی طرح طالبانِ مولیٰ کو بھی اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے پر دل وجان سے سر ِتسلیم خم کرنا چاہئے۔ حضرت عمرؓ نے مسلمانوں کو اللہ پر توکل سکھانے کی خاطر کچھ عرصے کے لیے حضرت خالدؓ کو عہدے سے ہٹا دیا۔
وفات
21ھ کی ایک غمناک رات تھی جب حمص شہر میں بستر ِ مرگ پر لیٹے ہوئے دنیا کے سب سے عظیم سپہ سالار اور فاتح حسرت و یاس کی تصویر بنے کہہ رہے تھے ’’اللہ گواہ ہے کہ مَیں نے ایک سو سے زیادہ جنگوں میں شرکت کی۔ میرے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں تیر کے نشان اور نیزے کے گھاؤ نہ ہوں مگر ہائے افسوس کہ آج مَیں میدانِ جنگ کی بجائے بستر پر مر رہا ہوں۔‘‘ حضرت خالدؓ بن ولید کا انتقال ہوا تو اُن کے ورثے میں ایک غلام، ایک گھوڑا اور سامانِ حرب کے سوا کچھ نہ تھا۔ راہِ خدا میں شہادت کی طلب ہی ان کا مقصد ِحیات تھا۔ ان کی جان اللہ کی راہ میں وقف تھی اور مال بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں صَرف ہوا۔ انہوں نے اپنے مقصد کے مقابلے میں اپنی زندگی کو کبھی عزیز نہیں رکھا۔ انکی شدید خواہش کے باوجود انہیں شہادت نصیب نہیں ہوئی۔ مطلب کوئی بھی اللہ کی تلوار کو نہ توڑ سکا۔ اسی طرح طالب ِ مولیٰ کو جہادِ اکبر یعنی نفس کے خلاف جہاد میں اتنا جری اور قوی ہونا چاہیے کہ نفس، دنیا اور شیطان اسے توڑ نہ سکیں۔ جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کو ان کی وفات کی اطلاع ملی تو بے حد غمگین ہوئے اور فرمایا:' ’’مسلمانوں کو ایسا نقصان پہنچا ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔ حضرت خالدؓ ایسے جرنیل تھے کہ اب شاید ہی کوئی ان کی جگہ لے سکے وہ دشمن کے لیے مصیبت تھے۔‘‘
علامہ محمدؐ اقبال اور جنابِ حضرت خالد
عالمِ اسلام کے اس بہادر و ناقابلِ شکست سپہ سالار کو حضرتِ علامہ ڈاکٹر محمدؐاقبالؒ نے خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا:.
قبضے میں یہ تلوار بھی آجائے تو مومن.
یا خالدِؓ جانباز ہے یا حیدرؓ کرار.
در مسلماں شانِ محبوبی نماند.
خالد و فاروق و ایوبی نماند.
خالد کے قبیلے، بنی مخزوم کا شجرہ نسب | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
|
کتابیات
ابتدائی ماخذ
ثانوی ماخذ
- شبلی، ابو زید (2003) [1933]. اللہ کی تلوار (بزبان عربی). لاہور: دار الابلاغ، لاہور.
- شبلی، ابو زید (1961) [1933]. خالد سیف اللہ حضرت خالد بن ولید زندگی اور فتوحات (بزبان عربی 242). ترجمہ بذریعہ شیخ محمد احمد پانی پتی. لاہور: مکتبہ میری لائبریری، لاہور.
- ہیکل، محمد حسین (1990). ابوبکر صدیق (بزبان عربی). دار المعارف. ISBN 977023074X.
- ہیکل، محمد حسین (1986). فاروق عمر (بزبان عربی). دار المعارف. ISBN 9770216194.
انگریزی
- اکرم، اے. آئی. (2007). خالد بن ولید، اللہ کی تلوار (بزبان انگریزی). برمنگھم. ISBN 978-0-9548665-2-5. OCLC 896826522.
- دائرۃ المعارف الاسلامیہ. (بزبان انگریزی). H. A. R. Gibb, P. J. Bearman. لائیڈن: بریل پبلشرز. 1960–2009. صفحات 928 – 929. ISBN 90-04-16121-X. OCLC 399624.
حوالہ جات
- ^ ا ب Zetterstéen 1965، ص: 235۔
- ↑ Shaban 1971، ص: 23–24۔
- ↑ اکرم 2007، ص: 1۔
- ↑ Lecker 2004، ص: 694۔
- ↑ أكرم 1982
- ^ ا ب العقاد 2002
- ↑ أكرم 1982
- ↑ "الوليد بن الوليد بن المغيرة". اخذ شدہ بتاریخ 23 دسمبر 2010.
- ↑ أكرم 1982
- ↑ Muir; Weir (1912) ص. 258
- ↑ Watt (1974) pp. 138—139
- ↑ "Uhud", Encyclopedia of Islam Online
- ↑ الرحيق المختوم (ایڈیشن ط 20). مصر: دار الوفاء. 2009. صفحات ص 237. ISBN 977-15-0269-7.
- ↑ Weston 2008
- ↑ (طبقات ابنِ سعد)
- ↑ Kennedy 2007، ص: 76۔
- ↑ Lecker 1989، ص: 27۔
- ↑ Lecker 1989، ص: 27, note 25۔
- ^ ا ب Nicolle 2009
- ↑ الرحيق المختوم (ایڈیشن ط 20). مصر: دار الوفاء. 2009. صفحات ص 335. ISBN 977-15-0269-7.
- ↑ أكرم 1982
- ↑ العقاد 2002
- ↑ (صحیح بخاری، باب غزوۂ موتہ)