خونی دروازہ
دہلی کے مشہور دروازوں میں سے ایک دروازہ۔ اس دروازے کی تعمیر شیر شاہ سوری کے عہد میں ہوئی اور یہ پرانے قلعے کا داخلی گیٹ تھا۔مولوی محمد باقر کو بھی اس دروازے کے سامنے شہید کیا گیا
خونی دروازہ Khooni Darwaza | |
---|---|
خونی دروازہ | |
عمومی معلومات | |
معماری طرز | مغلیہ طرز تعمیر-افغانستان |
شہر یا قصبہ | دہلی |
ملک | بھارت |
وجہ شہرت
ترمیمجنگ آزادی میں تیرہ اور انیس ستمبر کے درمیان میں انگریزوں نے دلی کا محاصرہ کیا۔ لاہوری گیٹ اور اجمیری گیٹ سے حملے ہوتے رہے، بالآخر انگریزوں نے لاہوری گيٹ سے پیش قدمی کی تو بہادر شاہ ظفر نے قلعہ چھوڑ کر ہمایوں کے مقبرے میں پناہ لی، بعض غداروں کی مدد سے کیپٹن ہڈسن نے انھیں قید کر لیا اور ان کے بیٹوں سے اپنے آپ کوحوالے کرنے کو کہا لیکن بیٹوں نے جان کی امان مانگی اور کیپٹن نے جب امان دینے سے منع کر دیا تو انھوں نے خود سپردگی سے انکار کیا۔ اس طرح کپٹن ہڈسن نے ان شہزادوں کے سر قلم کرکے ان کو بہادر شاہ ظفر کے سامنے طشت میں پیش کیا اور ان کی لاشوں کو خونی دروازے پر لٹکا دیا گیا۔
خون ہی خون
ترمیماس کے علاوہ شہنشاہ جہانگیر نے عبدالر حیم خان خاناں کے دو لڑکوں کو اسی گيٹ پر پھانسی دی تھی، پھراورنگ زیب نے اپنے بھائی دارا شکوہ کو بھی وہیں قتل کیا تھا لیکن خونی دروازہ اب اٹھارہ سو ستاون کے غدر کے لیے سبب سے زیادہ جانا جاتا ہے۔
ویکی ذخائر پر خونی دروازہ سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |