بھارت

جنوبی ایشیا کا ملک

بھارَت (ہندی: भारत، انگریزی: India), جسے عموماً ہندوستان یا ہند کہا جاتا ہے اور رسمی طور پر جمہوریہ بھارت جنوبی ایشیا میں واقع ایک ملک ہے۔ پرانے دور سے ہی مختلف مذاہب کو یہاں رچنے بسنے کا موقع ملا۔ بھارت آبادی کے لحاظ سے اس وقت سب سے بڑا ملک بن گیا ہے اور اس لحاظ سے یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی کہلاتا ہے۔ بھارت کے ایک ارب 35 کروڑ سے زائد باشندے سو سے زائد زبانیں بولتے ہیں۔ بھارت کے مشرق میں بنگلہ دیش اور میانمار، شمال میں بھوٹان، چین اور نیپال اور مغرب میں پاکستان اور جنوب مشرق اور جنوب مغرب میں بحر ہند واقع ہے۔ نیز یہ ملک سری لنکا، مالدیپ سے قریب ترین ملک ہے۔ جبکہ بھارت کے نکوبار اور انڈمان جزیرے تھائی لینڈ اور انڈونیشیا کے سمندری حدود سے جڑے ہوئے ہیں۔

جَمْہُورِیَۂ بھارَت
भारत गणराज्य
Republic of India
پرچم بھارت
مقام بھارت
دار الحکومتنئی دہلی
سرکاری زبانیںہندی
انگریزی
آبادی کا نامہندوستانی
حکومت
• صدر
دروپدی مرمو
جگدیپ دھنکھڑ
نریندر مودی
رقبہ
• کل
3,287,263 کلومیٹر2 (1,269,219 مربع میل) (7th)
آبادی
• 2023 تخمینہ
1,428,627,663 (اول)

بھارت کے بعض مغربی علاقے زمانہ قدیم میں وادی سندھ کے مراکز میں شامل تھے جو تجارت اور نفع بخش سلطنت کے لیے قدیم زمانے سے ہی دنیا میں مشہور تھی۔ چار مشہور مذاہب جن میں ہندومت ،بدھ مت، جین مت اور سکھ مت نے اسی ملک میں جنم لیا جبکہ، جودھامت، مسیحیت اور اسلام اپنے ابتدائی دور میں ہی یہاں پہنچ گئے تھے، جس نے یہاں کے علاقے کی تہذیب و ثقافت پر انمٹ نقوش مرتب کیے۔ اس علاقے پر آہستہ آہستہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلط 18ویں صدی میں شروع ہوئی جبکہ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد یہاں برطانیہ کی براہ راست حکومت قائم ہوئی۔

فی الحال بھارت کی معیشت عمومی جی ڈی پی کے لحاظ سے ساتویں بڑی اور قوت خرید (پی پی پی) کے لحاظ سے تیسری بڑی معیشت ہے۔ 1991ء کے معاشی اصلاحات نے اسے دنیا کی تیزی سے ابھرتی معیشتوں میں لا کھڑا کیا ہے اور یہ تقریباً صنعتی ملک کا درجہ حاصل کرنے والا ہے۔ بہرحال اس کے باوجود یہ ملک غربت، کرپشن، خوراک اور صحت کے مسائل کا شکار ہے۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس یہ ملک خطے کا ایک طاقتور ملک ہے اس کی فوج بلحاظ تعداد دنیا کی تیسری بڑی قوت ہے اور دفاعی خرچ کے لحاظ سے یہ دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے۔ بھارت ایک وفاقی جمہوریہ ہے جو پارلیمانی نظام کے تحت 29 ریاستوں اور 7 وفاقی علاقوں پر مشتمل ہے۔ بھارت ایک کثیر لسانی، مذہبی، ثقافتی اور نسلی معاشرہ ہے۔ نیز یہ ملک کئی انواع و اقسام کی جنگلی حیات سے بھی مالا مال ہے۔

نام کی بنیاد

ترمیم

دریائے سندھ کے مشرق میں واقع علاقہ کا نام عرب تاریخ نگاروں کے یہاں ہند تھا۔ علامہ اقبال کامشہور قومی نغمہ "سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا" الفاظ سے شروع ہوتا ہے۔ اس کا ایک اور نام انڈیا ہے۔ انڈس دریا سے نام انڈیا پڑا۔ ماضی میں اس خطے کو عموماً ہندوستان یا بھارت کہا جاتا تھا۔ آزادی کے بعد ملک کا سرکاری نام بھارت رکھا گیا،[1] تاہم تمام عالمی زبانوں میں اس کا انگریزی نام انڈیا ہی مستعمل ہے۔

تاریخی اعتبار سے بھارت کو کرما بھومی، تپو بھومی اور پُنیا بھومی جیسے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے۔[2]

تاریخ

ترمیم

برصغیر پاک و ہند صرف تین ادوار میں ایک ملک رہا۔ ایک تو چندرگپت موریا کے عہد میں اور دوسرے مغلیہ دور میں اور تیسرے انگریزوں کے زمانے میں۔ اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکومت میں مغلیہ سلطنت نسبتاً سب سے بڑی تھی۔ انگریزوں کے زمانے میں سلطنت مغلیہ دور سے قدرے کم تھی۔ ان تین ادوار کے علاوہ ہندوستان (موجودہ بھارت، بنگلہ دیش، بھوٹان ، نیپال ، مالدیپ ، سری لنکا اور پاکستان) ہمیشہ چھوٹی چھوٹی بے شمار ریاستوں میں بٹا رہا۔ اپنی ہزاروں سال کی تاریخ کے بیشتر دور میں ہندوستان چھوٹی ریاستوں ہی میں بٹا رہا ہے۔ بھارت میں پتھروں پر مصوری کی شروعات 40،000 سال پہلے ہوئی۔ سب سے پہلی مستقل آبادیاں 9،000 سال پہلے وجود میں آئیں۔ ان مقامی آبادیوں نے ترقی کر کہ سندھ طاس تہذیب کو جنم دیا۔ یہ تہذیب چھبیسویں صدی قبل از مسیح سے لے کر انیسویں صدی قبل از مسیح تک اپنے عروج پر تھی اور اس زمانے کی سب سے بڑی تہذیبوں میں شامل ہوتی تھی۔ مگر اس زمانے میں بھی اسے کبھی ہند نہیں کہا گیا بلکہ سندھ کے نام سے جانا جاتا رہا۔ برصغیر بہت عرصہ تک سندھ اور ہند میں منقسم رہا۔

اس کے بعد آنے والے دور کے بارے میں دو نظریات ہیں۔ پہلا نظریہ ماکس مولر نے پیش کیا۔ اس کے مطابق تقریباً پندرہویں صدی قبل از مسیح میں شمال مغرب کی طرف سے آریاؤں نے ہندورستان میں گھسنا شروع کر دیا۔ آریا حملہ آور بن کر آئے تھے اور طاقت کے استعمال سے پھیلے۔ مگر گنتی کے چند آریا طاقت کا استعمال کیے بغیر آہستہ آہستہ اس علاقے میں پھیلے اور آریاؤں اور مقامی دراوڑوں کے درمیان میں ہونے والے تعلق اور تبادلۂ خیالات سے ویدک تہذیب نے جنم لیا۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ آریا / ویدک لوگ ہندوستان کے مقامی لوگ تھے جو دراوڈ تہذیب ختم ہونے کے بعد عروج پزیر ہوئے۔

ساتویں صدی میں عربوں نے مغربی برصغیر کے علاقے سندھ پر حملہ کر کہ قبضہ کر لیا۔ اس سے پہلے بہت سے لوگ اسلام قبول کرچکے تھے اور عربوں کے قابض ہونے کے بعد مقامی لوگوں نے بڑی تیزی سے اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد تیرہویں صدی میں ترکوں نے ہندوستان پر حملہ کیا اور شمالی ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ سولہویں صدی میں مغلوں نے ہندوستان پر حملہ کیا اور آہستہ آہستہ تمام ہندوستان کے حاکم بن گئے۔ مغلوں کے حملے سے پہلے ہی ہندوستان میں مقامی لوگوں کی بڑی تعداد مسلمان تھی۔

انیسویں صدی میں انگریزوں نے مغلوں کو اپنے ماتحت کر لیا اور اس طرح ہندوستان کے حاکم بن گئے۔ 1857ء کے غدر کے بعد حکومت کمپنی سے برطانوی تاج کے پاس چلی گئی۔ 1876ء کے بعد سے برطانوی شاہان کو شاہنشاہ ہندوستان کا عہدہ بھی مل گیا۔ ملک کو سنبھالنے کے لیے‎ برطانوی حاکموں نے اپنی ’بانٹو اور راج کرو‘ پالیسی کو استعمال کیا۔ برطانوی پیداوار سستی اور مقامی پیداوار مہنگی کر کے مقامی صنعت کو نقصان پہنچایا گیا اور اس طرح ہندوستان سے پیسہ برطانیہ جاتا گیا۔ بھارت کی تحریک آزادی کا زیادہ تر زور نسلی امتیاز اور تابع تجارتی پالیسی کے خلاف تھا۔

برطانوی راج کے خلاف ایک زیادہ تر غیر تشدد پسند تحریک چلا کر موہن داس کرم چند گاندھی، جواہر لال نہرو، سردار پٹیل، ابوالکلام آزاد، بال گنگادھر تلک اور سبھاش چندر بوس کی قیادت میں بھارت نے 1947ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ ہندوستان کی تقسیم ہو کر دو نئے ملک پاکستان اور بھارت بن گئے۔

1962ء میں بھارت کی متنازع علاقوں پر چین سے جنگ ہوئی۔ 1965ء میں کشمیر پر بھارت کی پاکستان سے جنگ ہوئی۔ 1971ء میں پاکستان میں خانہ جنگی ہوئی اور اس میں بھارتی مداخلت بھی ہوئی۔ اس کے نتیجے میں بنگلہ دیش وجود میں آیا۔

گذشتہ کچھ عرصہ میں بھارت کی سرمایہ کاری اور پیداوار میں اضافہ دیکھا ہے۔ اس کے باوجود بھارت کے سامنے بنیادی مسائل، پاکستان کے ساتھ کشمیر کا تنازع، آبادی کا زیادہ ہونا، ماحولیاتی آلودگی، غربت، مذہبی اور نسلی اختلاف ہیں۔

قومی علاماتِ جمہوریہ بھارت
قومی جانور  
قومی پرندہ  
قومی درخت  
قومی پھول  
قومی وراثی جانور  
قومی آبی سمندری ستنپایی  
قومی رینگنے والا جانور  
قومی وراثی ستنپایی  
قومی پھل  
قومی مندر  
قومی دریا  
قومی پہاڑ  

سیاست

ترمیم

بھارت ایک جھوٹھی جمہوریت والا ملک ہے۔ جمہوریت بس نام کے لیے ہے، کاموں میں اس کا کوئی دخل نہیں بھارت اپنی 29 ریاستوں (صوبہ جات) اور مرکزی زیرِ حکومت علاقوں کا یونین (اتحاد) ہے جس کا بنیادی ڈھانچہ وفاقی ہے۔ بھارت کی ریاست کا سربراہ صدر بھارت ہے۔ صدر اور نائب صدر بھارت پانچ سالہ عرصے کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔

بھارت میں انتظامی طاقت کابینہ کے پاس ہے۔ کابینہ کے سربراہ وزیر اعظم ہوتے ہیں۔ صدر ان کو وزیر اعظم مقرر کرتے ہیں جن کو پارلیمان کی اکثریتی جماعت/ جماعتوں نے نامزد کیا ہوتا ہے۔ پھر وزیر اعظم کی صلاح پر دوسرے وزراء مقرر ہوتے ہیں

ذیلی علاقہ جات

ترمیم

بھارت ایک ملک ہے جو 28 ریاستوں اور 8 مرکزی زیر اقتدار علاقوں پر مبنی ہے۔ ۔[3] 1956 کے سٹیٹ ریگولیشن ایکٹ کے تحت، اتحادی علاقے مرکزی حکومت کے زیر اقتدار آتے ہیں۔ ریاستورں کو لسانی بنیاد پر تشکیل کی گئی۔ ہر ریاست یا اتحادی علاقہ اضلاع میں تقسیم کیا گیا اور اضلاع تحصیلوں میں۔ حکومت کی آخری انتظامی اکائی کے طور پر گاؤں/پنچایت تشکیل پائے گئے۔

 بحر ہندخلیج بنگالبحیرہ انڈمانبحیرہ عرببحیرہ لاکادیوسیاچن گلیشیرجزائر انڈمان و نکوبارچندی گڑھدادرا و نگر حویلیدمن و دیودہلیلکشادیپپونڈیچریپونڈیچریپونڈیچریاروناچل پردیشآسامبہار (بھارت)چھتیس گڑھگواگجرات (بھارت)ہریانہہماچل پردیشجموں و کشمیرجھارکھنڈکرناٹککیرلامدھیہ پردیشمہاراشٹرمنی پورمیگھالیہمیزورمناگالینڈاڑیسہپنجاب (بھارت)راجستھانسکمتمل ناڈوتریپورہاتر پردیشاتراکھنڈمغربی بنگالافغانستانبنگلہ دیشبھوٹانمیانمارچیننیپالپاکستانسری لنکاتاجکستاندادرا و نگر حویلیدمن و دیوپونڈیچریپونڈیچریپونڈیچریپونڈیچریگواگجرات (بھارت)جموں و کشمیرکرناٹککیرلامدھیہ پردیشمہاراشٹرراجستھانتمل ناڈوآساممیگھالیہآندھرا پردیشاروناچل پردیشناگالینڈمنی پورمیزورمتلنگانہتریپورہمغربی بنگالسکمبھوٹانبنگلہ دیشبہار (بھارت)جھارکھنڈاڑیسہچھتیس گڑھاتر پردیشاتراکھنڈنیپالدہلیہریانہپنجاب (بھارت)ہماچل پردیشچندی گڑھپاکستانسری لنکاسری لنکاسری لنکاسری لنکاسری لنکاسری لنکاسری لنکاسری لنکاسری لنکاکشمیرکشمیر
بھارت کے 28 ریاستوں اور 8 متحدہ عملداریوں کا قابل طق نقشہ

ریاستیں

مرکزی زیر انتظام علاقے

فوجی طاقت

ترمیم
 
اے جے ایل ٹی: جو ایک ہلکا بھارتی سپرسونك لڑاکا طیارہ ہے।

1947ء میں اپنی آزادی کے بعد سے بھارت نے زیادہ تر ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلق قائم رکھا ہے۔ 1950ء کی دہائی میں بھارت نے بھرپور طریقے سے افریقہ اور ایشیا میں یورپی ممالک سے آزادی کی حمایت کی اور غیر وابستہ تحریک میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ 1980ء کے دہائی میں بھارت نے پڑوسی ممالک کی دعوت پر دو ممالک میں مختصر فوجی مداخلت کی۔ مالدیپ، سری لنکا اور دیگر ممالک میں آپریشن کے دوران میں بھارتی امن فوج بھیجی۔ جبکہ، بھارت کے پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ ایک کشیدہ تعلق شروع سے برقرار رہا اور دونوں ملک تین بار جنگوں ( 1965ء، 1971ء اور 1999ء میں) میں مدمقابل آئے۔ تنازع کشمیر ان جنگوں کی بڑی وجہ تھی۔ 1971ء کو چھوڑ کر کہ وہ جنگ اس وقت کے مشرقی پاکستان میں شہری کشیدہ حالات کے لیے کی گئی تھی۔ 1962ء کی بھارت - چین جنگ اور پاکستان کے ساتھ 1965ء کی جنگ کے بعد بھارت نے اپنی فوجی اور اقتصادی حالت میں ترقی کرنے کی کوشش کی۔ سوویت یونین کے ساتھ اچھے تعلقات کی وجہ سے سنہ 1960ء کی دہائی میں، سوویت یونین بھارت کا سب سے بڑا ہتھیار فراہم کرنے والے ملک کے طور پر ابھرا ہے۔

آج روس کے ساتھ دور رس تعلقات کو جاری رکھنے کے علاوہ، بھارت اسرائیل اور فرانس کے ساتھ دفاعی تعلقات رکھ رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں، بھارت نے علاقائی تعاون اور عالمی تجارتی تنظیم کے لیے ایک جنوب ایشیائی ایسوسی ایشن میں موثر کردار ادا کیا ہے۔ بھارت نے اب تک 10،000 متحدہ فوجی اور پولیس اہلکاروں کے ذریعے چار براعظموں میں پینتیس اقوام متحدہ امن کارروائیوں میں خدمات فراہم کی ہیں۔ بھارت بھی مختلف بین الاقوامی مقام، خاص طور پر مشرقی ایشیا کی سربراہ اجلاس اور جی -85 اجلاس میں ایک سرگرم رکن رہا ہے۔ اقتصادی شعبے میں بھارت نے جنوبی امریکا، افریقہ اور ایشیا کے ترقی پزیر ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات رکھے ہیں۔ اب بھارت نے "آگے کی طرف دیکھو پالیسی" میں بھی اتفاق کیا ہے۔ یہ "آسیان" ممالک کے ساتھ اپنی شراکت کو مضبوط بنانے کے امور کا معاملہ ہے جس میں جاپان اور جنوبی کوریا نے بھی مدد کی ہے۔ یہ خاص طور پر اقتصادی سرمایہ کاری اور علاقائی سلامتی کی کوشش ہے۔

1974ء میں بھارت نے اپنے پہلے ایٹمی ہتھیاروں کا تجربہ کیا اور پھر 1998ء میں زیر زمین تجربات کیے۔ بھارت کے پاس اب انواع و اقسام کے جوہری ہتھيار ہیں۔ بھارت اب روس کے ساتھ مل کر جدید لڑاکا طیارے تیار کر رہا ہے، جو جوہری ہتھیاروں سے لیس ہو کر حملہ آور ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

حال ہی میں، بھارت کا امریکا اور یورپی یونین کے ساتھ مشترکہ اقتصادی، وسیع تر باہمی مفاد اور دفاعی تعاون بڑھ گیا ہے۔ 2008ء میں، بھارت اور امریکا کے درمیان میں غیر فوجی جوہری تعاون کے معائدے پر دستخط کیے گئے تھے۔ حالانکہ اس وقت بھارت کے پاس ایٹمی ہتھیار تیار تھا اور وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کے حق میں نہیں تھا۔ گو اس کو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ادارے اور نیوکلیئر سپلائر گروپ سے چھوٹ حاصل ہے۔ اسی معاہدے کے تحت بھارت کی غیر فوجی جوہری ٹیکنالوجی اور جوہری تجارتی مقاصد پر پہلے ہی پابندی ختم کر دی گئی ہے۔ بھارت دنیا کا چھٹا ایٹمی ہتھیار سے لیس ملک بن گیا ہے۔ نیوکلئیر سپلائر گروپ کی جانب سے دی گئی چھوٹ کے بعد بھارت روس، فرانس، برطانیہ اور کینیڈا سمیت دوسرے ممالک کے ساتھ غیر فوجی جوہری توانائی معاہدے پر دستخط کرنے کے قابل ہے۔

تقریباً 1.3 ملین سرگرم فوجیوں کے ساتھ، بھارتی فوج دنیا میں تیسری سب سے بڑی فوجی طاقت ہے۔ بھارت کے صدر بھارتی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں۔ سال 2011ء میں بھارتی دفاعی بجٹ 36.03 ارب امریکی ڈالر رہا (یا خام ملکی پیداوار کا 1.83٪)۔ 2008ء کی ایک رپورٹ کے مطابق، بھارت خریدنے کی طاقت کے معاملے میں بھارتی فوج کے فوجی اخراجات 72.7 ارب امریکی ڈالر رہے۔ سال 2011ء میں بھارتی وزارت دفاع کے سالانہ دفاعی بجٹ میں 11.6 فیصد اضافہ ہوا، تاہم یہ رقم حکومت کی دیگر شاخوں کے ذریعے فوجی اخراجات کے بجٹ میں شامل نہیں ہوتی۔ حالیہ سالوں میں، بھارت دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار درآمد کنندہ بن گیا ہے۔

آبادیات

ترمیم

بھارت اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ اگر دنیا کی آبادی کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جائے تو ان چھ حصوں میں سے ایک حصہ آبادی بھارت کی ہے۔ بھارت میں کُل دنیا کے 17.5 فیصد لوگ آباد ہیں۔ آبادی کی مختلف شماریات اور تناسبات کو دیکھ کر ماہرین کا کہنا ہے کہ 2025ء تک بھارت دنیا کا پہلا سب سے بڑا ملک بن جائے گا اور اس کی آبادی چین سے زیادہ ہو جائے گی۔[4]

بھارت کی 50 فیصد سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے یعنی جن کی عمر 25 سال سے کم ہے۔ بھارت میں 1 سال سے 35 سال تک عمر والے افراد پورے بھارت کی 65 فیصد آبادی ہے۔

زبانیں

ترمیم

بھارت میں 1000 سے زائد نسلی گروہ ہیں جو ہزار سے زائد زبانیں بولتے ہیں۔۔ دنیا کے چاروں بڑے خاندانہائے زبان (دراوڑی زبانیں، ہند-یورپی زبانیں، جنوبی ایشیائی زبانیں، چینی۔تبتی زبانیں) بھارت میں موجود ہیں۔ بھارت دو اہم زبانی خاندان (ہند آریائی زبانیں اور دراویدی زبانیں) کی جائے پیدائش ہے۔ اول کو 74 فیصد اور دوم کو 24 فیصد آبادی بولتی ہے۔ دیگر زبانوں میں جنوبی ایشیائی زبانیں، چینی تبتی زبانیں جیسے لسانی خاندان شامل ہیں۔ [5] ہندی زبان سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔[6] [5] انگریزی زبان کو ملک بھر میں اچھی حیثیت حاصل ہے۔ تجارت، تعلیم اور انتظامیہ میں انگریزی زبان کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔

مذہب

ترمیم

بھارت میں مذہب مذہبی عقائد و اعمال کے تنوع کی خصوصیات رکھتا ہے۔ آئین میں 1976ء میں کی جانے والی 42 ویں ترمیم کے مطابق بھارت ایک لادینی ریاست ہے، اس کا مطلب ہے کہ ریاست تمام مذاہب کے ساتھ مساوی رویہ اختیار کرے گی۔ برصغیر کئی بڑے مذاہب کا پیدائشی وطن ہے; یعنی ہندو مت، بدھ مت، جین مت اور سکھ مت۔ بھارت کی پوری تاریخ میں، مذہب ملکی ثقافت کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ مذہبی تنوع اور مذہبی اعتدال دونوں ملک میں بذریعہ قانون اور رسوم کے قائم ہوئے; بھارت کا آئین صاف الفاظ میں مذہبی آزادی کو بنیادی حق قرار دیتا ہے۔[7]

آج، پوری دنیا کی کل ہندو آبادی کا 90% بھارت میں ہے۔ زیادہ تر ہندو سمادھیاں اور مندر بھارت میں ہیں، اسی طرح یہ زیادہ تر ہندو سنتوں کی جنم بھومی ہے۔ الٰہ آباد دنیا کی سب سے بڑی مذہبی زیارت، کمبھ میلہ کی میزبانی کرتا ہے، جہاں پر دنیا بھر کے ہندو بھارت کے تین مقدس دریاؤں دریائے گنگا، دریائے جمنا اور سرسوتی کے سنگم پر غسل کے لیے آتے ہیں۔ مغرب میں بھارتی تارکین وطن نے ہندو فلسفہ کے کئی پہلؤوں کو عام کیا ہے جیسے یوگا، مراقبہ، آیور ویدک، کہانت، کرم اور تناسخ وغیرہ کے نظریات ۔[8]

2011ء میں بھارت میں کی جانے والی مردم شماری کے مطابق کل آبادی کا 79.8% ہندو اور 14.2% مسلمان ہیں، جب کہ 6% دیگر مذاہب جیسے مسیحیت، سکھ مت، بدھ مت، جین مت وغیرہ ہیں۔ مسیحیت بھارت کا تیسرا بڑا مذہب ہے۔ پارسی اور یہودی قدیم بھارت میں آباد تھے، آج کے دور میں ان کی تعداد محض ہزاروں میں ہے۔

ثقافت

ترمیم

بھارت کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے، اس وجہ ایک جغرافیائی خطہ ہو کر بھارت میں کافی ننوع دیکھنے میں آیا ہے۔ بھارت کی آبادی کی غالب اکثریت ہندو مت کی پیروکار ہے۔ تاہم کوئی ایک تعریف کبھی دیکھنے میں نہیں آئی کہ ہندو کون ہے۔ آریہ سماج کے کئی لوگ بت پرستی کو نہیں مان کر بھی ہندو ہے۔ برہمو سماج کے لوگ توحید کا عقیدہ رکھ کر بھی ہندو ہیں۔ ہندو دھرم کے زیادہ تر لوگ کثرت الوہ اور بت پرستی کے قائل ہیں، مگر وہ ان لوگوں کو بھی اپنے میں قبول کرتے ہیں۔ حد یہ کہ خدا کو نہیں ماننے والے ملحد بھی ہندو ہیں۔

ماضی میں بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو ملحد تھے[9]، 2013–18 تک کرناٹک ریاست کے وزیر اعلیٰ سدارمیا معلنہ طور پر ملحد رہے[10]۔ اس وجہ یہاں کا دایاں محاذ ہر بھارتی کو ہندو مانتا ہے لفظ ہندو کو بھارتی کے معنوں میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔[11] تاہم اس بات سے ہر کوئی متفق نہیں ہے۔ اس کے باوجود، بھارت ایک سیکولر ملک ہے۔ یہاں جس طرح منادر جگہ جگہ موجود ہیں، اسی طرح مساجد، گرجا گھر اور گرودوارے ہیں۔ ملک میں کچھ وقت پہلے ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام صدر جمہوریہ تھے جو ایک مسلمان تھے۔ اسی طرح گیانی ذیل سنگھ سکھ ہو کر بھی بھارت کے صدر جمہوریہ تھے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ بھی سکھ تھے اور بھارت میں دس سال تک وزیر اعظم تھے۔

اسی طرح سے بھارت میں کئی زبانیں اور بولیاں موجود ہیں، مگر ملک میں وفاقی حکومت کی سرکاری زبان ہندی کو قرار دینے کے باوجود اسے قومی زبان کا درجہ نہیں دے پائے ہیں۔ [12] اس کی وجہ غالبًا یہ ہے کہ ہم زبان اور بولی میں حد فاصل کیسے قائم کریں، یہ طے نہیں ہے۔ لوگ جدید طور پر بھوجپوری زبان بولتے ہیں جو ہندی زبان سے کافی مشابہ ہے اور دونوں زبان کے لوگ ایک ہی انداز میں بات کرتے ہیں، ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں۔ تاہم بھوجپوری لوگ اپنی زبان کو ہندی سے الگ ماننے لگے ہیں۔ یہی حال راجستھانی زبان اور کچھ اور بولیوں کا ہے۔ ہندی کے خلاف سے سب زیادہ احتجاج جنوبی ہند کی ریاست تمل ناڈو میں ہوئے ہیں۔[13] اس کی وجہ سے ریاست کے زیادہ تر مدارس میں لوگ ہندی نہیں پڑھاتے۔ بھارت میں مرکزی اور ریاستی زبانوں کے جھگڑے بھی ہوئے ہیں۔[14] اور اس کے علاوہ اردو زبان کو اس کا مستحقہ مقام دینے کا مسئلہ ایسا رہا ہے، جس پر سیاسی حلقے سنجیدگی سے کام نہیں کرتے۔ [15] پھر بھی بھارت ایک ہمہ لسانی ملک کے طور عالمی پہچان بنا چکا ہے۔ اس کے کئی بین الاقوامی مطالعے بھی ہو چکے ہیں۔

بھارتی ثقافت میں نرینہ اولاد کو سبقت دینے کی وجہ سے مادہ اسقاط حمل کے رواج سے نر اور مادہ بچوں کے تناسب میں انتشار پیدا ہو گیا ہے۔[16]

ہندوستانی ادب

ترمیم

بھارت میں قدیم دور میں تحریری روایتوں کی کمی رہی ہے۔ ہندو میں مذہبی طور پر مقدس چار وید زبانی روایتوں کے ذریعے فروغ پائے۔ بعد کے دور میں ان سے متاثر ہو کر کئی اور کتابیں وجود میں آئی ہیں۔ جیسے کہ اپنشد، اپ وید، پران، برہمنا، اتہاس وغیرہ شامل ہیں۔

قدیم راجگان اور مہاراجگان کے دور سے لے مسلمان سلاطین اور مغلوں کے دور میں درباری شاعر اور مؤرخوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے۔ ہندوستان کے کچھ حصے پر فاتح محمود غزنوی نے اپنے درباری شاعر فردوسی کو اپنی خود کی تاریخ بہ عنوان شاہنامہ لکھنے پر مامور کیا۔ جب فردوسی نے پوری ایمان داری سے شاہ نامہ لکھ دیا، تب باد شاہ نے وعدہ شدہ انعام دینے سے انکار کر دیا۔ ایسے میں فردوسی بد دل ہو کر دربار سے رخصت ہوا۔ وہ یہ باور کرنے لگا کہ محمود میں شاہی خون کی کمی ہی شاید رہی ہے کہ وہ اپنے وعدے سے مکر گیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد محمود غزنوی اپنے کیے پر نادم ہوتا ہے اور وعدہ شدہ رقم فردوسی کے گھر پہنچاتا ہے۔ مگر تب تک وہ انتقال کر جاتا ہے۔ اس کی بیٹی نے یہ کہہ کر انعامی رقم لینے سے انکار کر دیا کہ جب جس سے وعدہ کیا گیا تھا، وہ نہیں رہے، تو یہ رقم لینے سے کیا حاصل۔ [17]

مغل بادشاہوں میں اکبر نے کئی اہل قلم کی حوصلہ افزائی کی۔ بعد کے دور میں یہ حوصلہ افزائی اور بھی بڑھی ہوئی ہونے لگی۔ آخری مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفر خود ایک شاعر تھے۔ انھوں نے استاد ذوق اور مرزا غالب جیسے کئی لوگوں کی حوصلہ افزائی کی تھی جو اصحاب قلم شاعر تھے۔ [18]

برطانوی ہند میں ربندرناتھ ٹیگور گیتانجلی لکھے تھے، جس کے لیے انھیں نوبل انعام ملا تھا۔[19]

آزاد ہندوستان میں بھی کئی اہل قلم بھارت میں گذرے۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو ایک تاریخی دستاویز Discovery of India لکھے تھے۔ مشہور مصنفہ اروندھتی رائے سسکتے لوگ نامی ناول لکھا تھا، جس کے لیے اسے بکر انعام دیا گیا تھا۔ [20]

حقوق

ترمیم

مراقبت

ترمیم

بھارتی سرکار کی طرف سے غیر پسندیدہ طباعت پر پابندی لگانے کی روایت ہے۔ اکانمسٹ کے 2011ء شمارے میں کشمیر کا نقشہ متنازع علاقہ لکھنے پر بھارت نے نقشہ پر سفید دھبہ لگانے کے بعد فروخت کی اجازت دی۔[21]

کھیل

ترمیم

دنیا بھر میں ناپید ہونے والے قدیم کھیل بھارت میں اب بھی مشہور ہیں اور کھیلے جاتے ہیں جیسے کبڈی، کھو کھو، پہلوانی اور گلی ڈنڈا۔ ایشیائی مارشل آرٹ کی کچھ اقسام جیسے کالا رلیتتو، موستی یوددا، سلمبم اور مارما ادی بھارت کی ہی پیداوار ہیں۔ شطرنج کو عام طور پر بھارت میں ایجاد ہوا کھیل مانا جاتا ہے اورآج کل دنیا بھر میں کافی مقبول ہو رہا ہے اور بھارتی گرانڈ ماسٹر کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔و334وو335و پاششچی جلال الدین اکبر کے دربار میں ایک بڑے سے ماربل کا منقش تھا۔

بھارت سے متعلقہ مضامین

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "دستور ہند"۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  2. “Indian Society: Issues, Policies and Welfare Schemes”، Dr Vinita Pandey, BSC Publishers & Distributors, Hyderabad, P. 1.3.
  3. Library of Congress 2004.
  4. BBC NEWS | In Depth | India population 'to be biggest'
  5. ^ ا ب Ottenheimer 2008, p. 303.
  6. Mallikarjun 2004.
  7. درگا داس باسو (2013)۔ بھارتی آئین کا تعارف (21 ایڈیشن)۔ LexisNexis۔ صفحہ: 124۔ ISBN 978-81-803-8918-4۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 جنوری 2019 
  8. P. 225 Essential Hinduism By Steven Rosen
  9. The Chacha Nehru we hardly know! - IN SCHOOL – The Hindu
  10. Atheist Siddaramaiah and God's changing role in politics – Rediff.com India News
  11. All Indians are Hindus, says RSS chief – NATIONAL – The Hindu
  12. Nearly 60% of Indians speak a language other than Hindi | India News – Times of India
  13. https://thewire.in/politics/tamil-nadu-anti-hindi-protests
  14. Marathi-Hindi Row Turns Ugly in Mumbai, Hawkers Thrash MNS Workers – News18
  15. https://www.mainstreamweekly.net/article1094.html
  16. "The full extent of India's 'gendercide'"۔ انڈپنڈنٹ۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2011 
  17. Appendix 1 – Firdausi’s Panegyric of Mahmud of Ghazni and his Satire on the Same Ruler
  18. The Telegraph – Calcutta : Opinion
  19. Gitanjali by Rabindranath Tagore
  20. The God of Small Things | The Man Booker Prizes
  21. "کشمیر کا نقشہ، بھارت پر سینسرشپ کا الزام"۔ بی بی سی۔ 25 مئی 2011ء۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 مئی 2011