دار الصلح
صلح کا گھر۔ اس کو دار العہد بھی کہتے ہیں۔ دار الحرب اور دار الاسلام کے علاوہ علما نے مملکت کی ایک تیسری قسم دارالصلح بھی رکھی ہے۔ اس سے مراد وہ علاقہ جسے کسی معاہدے یا صلح سے حاصل کیا گیا ہو۔ اس کی ابتدائی مثال نجران اور تومیہ کے علاقے ہیں جہاں مسیحی آباد تھے اور ان سے معاہدے کی بنا پر جزیہ یا خراج لیا جاتا تھا۔ بعد میں طے کیا گیا جو علاقے صلح کے بعد لیے جائیں وہاں کی زمین یا تو مسلمانوں کی وقف زمین ہوجاتی ہے یا اصلی باشندوں کے پاس رہتی ہے۔ جو ذمی ہو جاتے ہیں اور جزیہ یا خراج دینا منظور کر لیتے ہیں۔ اگر وہ مسلمان ہو جائیں تو خراج لینا بند کر دیا جاتا ہے اور زمین مستقل طور پر ان کی ہو جاتی ہے۔ امام ابو حنیفہ اس کو بھی دار الاسلام کہتے ہیں۔ یہ لوگ معاہدہ توڑ دیں تو پھر یہ علاقہ دار الحرب بن جاتا ہے۔