دشت آدم
دشت آدم ٹیکنک اور اسلوب بیان کے اعتبار سے نثری بیانیہ کے جلو میں کہیں کہیں نظم کی چھوٹی بڑی سطروں کا طلوع کرتے ہوئے دل چسپی کا سامان پیدا کرتا نظر آتا ہے۔ اس ناول کی لفظیات میں تنوع کے ساتھ اشکال اور شعریت کے اثرات نمایاں ہیں ۔ اس ’’دشت‘‘ کی سیاحی میں قاری ناول میں بیان کردہ موضوعات اور خیالات سے اپنا رشتہ قائم رکھنے میں کام یاب ہوتا نظر نہیں آتا۔ ویسے افسانے اور شاعری کی ٹوٹتی حد بندیوں کے درمیان سلیم شہزاد کے اس ناول کو نثر میں شعریت کے رچاو سے بھرپور ایک خوب صورت تجربہ قرار دینے میں ناقد کو تامل نہیں ہونا چاہیے۔