دلپذیر شاد
دلپذیر شاد
ہیڈ ماسٹر دلپذیر شاد کا تعلق خطہ پوٹھوار ڈسٹرکٹ راولپنڈی کی تحصیل کلر سیداں سے ہیں
(بنت دلپذیر شاد)/ادب کا ایک سورج جس نے کئی ستاروں کو روشنی دی اور اس کی اپنی روشنی آج بھی قائم ہے اور رہے گی ادب کی دنیا میں ان کا نام ادب کی خدمات کے حوالے سے یاد رہے گا آج کے دن دنیا سے رخصت ہونے والا یہ نام کسی تعارف کا محتاج نہیں جو بہت سی آنکھوں کو خون کے آنسو رلا گیا 9ذوالحجہ 1938ہجری بروز بدھ 23 ستمبر 2015 کو اس دنیا فانی سے کوچ کرنے والاجو بچپن میں اتھرا اور ضدی مانا جاتا تھا مگرجس نے نوجوانی ہی سے ادب کی انگلی ایسی پکڑی کہ لاکھ آندھی وطوفان ہو ادب کے دامن میں لپٹا رہا زندگی میں کئی جگہ نشیب وفراز آئے مگر وہ پتھر کے سب راستوں کو جانفشانی سے عبور کرتا گیا اور اپنے نام کے انمٹ نقوش ان پتھروں ان راستوں ان وادیوں ان کہساروں ان پہاڑوں ان جنگلوں اور گاؤں و شہروں میں میں چھوڑ گیا جہاں درد کی وادیاں بھی ہیں جہاں خوشیوں کی مہکتی بہاریں بھی ہیں جہاں اپنوں کا ساتھ بھی اگر ہے تو سیاست کی دنیا میں پلتے ہوئے ناسور بھی ہیں جہاں حسین وادیوں میں زندگی دامن گیر ہے وہاں راستے میں کانٹوں سے بھری باڑیں بھی ہیں 1960 میں ہندکو زبان سے شاعری کی باقاعدہ ابتدا کرنے والا چھ دہائیوں تک اپنی شاعری اور نثرکی زبان میں مختلف زبانوں اور مختلف رنگوں میں شاعری کرتا رہا ان کی شاعری میں ایک صوفی ایک درویش کے جہاں سب رنگ نظر آتے ہیں وہاں معاشرے اور سماج میں پلتے ہوئے ناسور بھی ملتے ہیں جہاں رب کائنات اور حبیب رب سے رغبت ملتی ہے وہاں سچے سخن وروں کا ساتھ بھی ملتا ہے اور جہاں روحانی علم میں نام ملتا ہے وہاں کھلی آنکھ سے دنیا کو دیکھنے کے رنگ بھی ملتے ہیں بہت سے عزیز اورقریب ترین ساتھیوں کے نام جہاں ملتے ہیں وہاں ادب کے زندہ رنگوں میں محمد جمیل قلندر مرحوم کا نام اور عزیزوں میں عبد الخالق کا نام ملتا ہے وہاں آخری دہائی میں ان کی بیٹی بھی ان کے ساتھ کئی جگہ پر سفر کرتی نظر آتی ہے۔ ان بزرگ شاعر کی کئی دہائیوں تک ادب و شاعری کئی حوالوں سے ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کی زینت بنتے رہے اور رسائل جرائد ماہنامے ہفت روزے روزنامے اور کتب کے صفحات ان کی شاعری اور نثروں سے سجتے رہے صرف ادب کی دنیا میں ہی نہیں رشتوں میں بھی محبتیں بانٹنے والا چھوٹے بڑے کی تمیز کرنے والا سب کو اتحاد کا سبق دینے والا اور رشتوں کی پہچان کرانے والا اس انسان نے زندگی کے ہر رنگ کو محسوس کیا دیکھا پرکھا اور اس پر عمل کیا ان کی کتب میں پوٹھوہاری زبان میں شاعری نے ان کو بابائے پوٹھوہار بنایا 1978 میں ان کا مجموعہ کلام سانجھے سیک جو پنجابی پوٹھوہاری میں تھا ان کی پہچان بنا جو انھوں نے پوٹھوہار کی شان شریف شاد کے نام کیا آگے چل کر ریڈیو ٹی وی اور رسائل و جرائد خاص کر رسالہ نگارش مرتب کرتے رہے جو بہت عرصہ ادب کاساتھی رہا پھر 1999 میں ویلے نی اکھ منظر عام پر آئی جو اپنے سچے اور کھرے ان ساتھیوں کے نام کی جن سے ادب کی دنیا میں سچی اور کھری روایتوں کا سلیقہ سیکھا 2005 میں ان کی دو کتب سخن سلوک اور اردو غزل کا پوٹھوہار رنگ سامنے آئیں سخن سلوک رب کائنات و ارض سماء کے حبیب آقائے دوجہاں کے نام کی اور اردو غزل کا پوٹھوہار رنگ اردو و پوٹھوہاری شاعری کی تاریخ کے نام کی۔ اردو غزل کا پوٹھوہار رنگ میں حمدیہ اردو کلام شاعر عبد الرحمان کاشف کا پوٹھوہاری شاعری کی زبان میں ترجمے سے ابتدا کی اور اپنے صوفی شعرا اور احباب سمیت 109 ادبی شمعوں کے کلام کا ترجمہ پوٹھوہاری زبان میں کیا 2006 میں ادب کی اگلی سیڑھی پراچیاں شاناں والے کھڑی تھی جو رب العزت کے پیارے بندوں کے نام ہوئی۔2007 میں ان کی تحریروں پر مبنی سانجھی گل پبلش ہوئی جس کو مرتب امجد علی بھٹی صاحب نے کیا جس میں انھوں نے معاشرتی سماجی اسلامی اور قومی کئی موضوعات پر لکھا مارچ 2008 میں اگلا قدم سخن وروں کے نام تھا جس کا انتساب اختر امام رضوی کے نام کیا جس میں کئی ادبی جیالوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ کئی صوفی بزرگوں کو خراج تحسین پیش کیا ادب کی منزلیں طے کرتا ہوا پوٹھوہاری ادب کو 2009 میں پوٹھوہاری لغات کا تحفہ دے گیا جیسے انھوں نے ڈاکٹر جاوید الحق کے نام کیا جو اس وقت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں زبانوں کے شعبہ کے انچارج تھے 2010 میں پاک وطن دی خاطر جہناں لہو دے دیوے بالے کیپٹن شبیر حسین شاہ شہید کے نام کی اور پاک وطن کی دھرتی پر اس جان وارنے والے کو کئی بار خراج تحسین پیش کی اس کتاب میں کبیر حسین شاہ اختر صاحب نے اس بزرگ شاعر و ادیب ولکھاری پر خوبصورت اور کھرے لفظوں میں اظہار خیال کیا اس کے علاوہ رشید نثار اور جاوید احمد کے مضمون بھی دلپذیر شاد بارے ملتے ہیں 2011 کے ماہ رمضان میں کملی والے محمد حبیب خدا ان کی پوٹھوہاری پنجابی ہندکو اور فارسی زبانوں پر مشتمل مجموعہ کلام ان کے تمام احباب کے ہاتھوں کی زینت بنا ان کے مذہبی دوستوں میں جہاں تک میری نظر جاتی ہے عبد الرحمان کاشف کا بھی ایک نام ہے جن سے انھوں نے مجھے متعارف کرایا تھا جو میرے شفیق بزرگوں میں سے ہیں۔ یہاں پر اردو کتب کا ذکر نہیں کیا جا رہا جو ان کے علاوہ ہیں یاد رہے ان کا پہلا ہندکو ابیات کا مجموعہ کلام انمول سخن 1964 میں شائع ہوادوسرا 1966 میں بکھرے موتی کے نام سے کئی ادب کے اس دور کے موتیوں کے ہاتھ میں آیا اور پھر 1969 میں شہادت حسین اور 1971 میں اتھرو تے ہاسے ادب کی دنیا کی زینت بنا 2013 تک اپنا ادبی سفر جاری رکھنے والا جس کی زبان آنکھوں ہاتھوں سے آخری دم تک ادب ہی ادب پھوٹتا رہا اور اپنی بیٹیوں کو خاص کر اپنے قصے سناتا رہا یہ اپنے دور کا درخشاں سورج 10جنوری 1941 میں اپنوں کی آنکھ کا تارا بنا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک مکمل سورج بن کر ابھرا جس کی روشنی کی کرنیں ہمیشہ جگمگاتی رہیں گی یہ معتبر نام محمد دلپذیر شاد مرحوم کا تھا۔ہے اور رہے گا۔اللہ ان کا قدم قدم پر اگلی دنیا میں حامی وناصر رہے اور بہشتوں میں اعلی مقام ہو آمین