دلی تھا جس کا نام
دلی تھا جس کا نام، انتظار حسین کی مشہور و معروف کتاب ہے جو دہلی شہر کی تارخ پر لکھی گئے ہے۔
مصنف | انتظار حسین |
---|---|
ملک | پاکستان |
زبان | اردو |
صنف | تاریخ |
ناشر | سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور |
تاریخ اشاعت | سنہ 2007ء |
طرز طباعت | مطبوعہ (مجلد) |
صفحات | 192 |
مواد
ترمیممصنف نے مذکورہ کتاب سنگ میل پبلی کیشنز کے مالک نیاز احمد کی فرمائش پر لکھی۔[1] اس کتاب میں دہلی شہر کی مکمل سماجی تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاقہ دہلی شہر کے رجال، کوچہ و بازار، رسمیں، مشغلے، ہنر، رنگ و خوشبوئیں، ذائقہ و پکوان، بانکے و نرالے، پیر و فقیر، حکماء و مشاہیر، خواجگان، تحریکِ آزادی 1857ء، دہلی کا اُجڑنا اور دہلی بطور نئی راجدھانی کا تذکرہ مفصل بیان ہے۔
اسلوب
ترمیم” | مردانے کی آبرو دیوان خانہ تھا، دیوان خانہ کا کیا خوب نقشہ تھا۔ دیواروں پر جا بجا طغرے اور کتبے، اِکا دُکا ڈھال لٹکی ہوئی، خاندان کے بزرگوں کی قلمی تصویریں۔ چھت میں آویزاں جھاڑ فانوس۔ فرش پر دری، دری پر براق چاندنی، دائیں بائیں ایرانی قالین۔ دیواروں کے سہارے گول گول تکئے دھرے ہوئے، ان پر پھول دار غلاف چڑھے ہوئے۔ درمیان میں جا بجا حقے پیچوان رکھے ہوئے۔ اور یہاں وہاں کچھ پیک دان۔ چاندی کے ورقوں میں لپٹی گلوریوں سے سجی تھالی گردش میں ہے۔ طشتریوں میں الائچیاں مصری کی ڈلیاں۔ محفل گرم ہے۔ محفل کے نام یہاں کبھی شعر و شاعری ہوتی نظر آئے گی، کبھی باقاعدہ مشاعرہ، کبھی داستان گوئی کا اہتمام، کبھی محفلِ موسیقی یا مجرا۔ اور اگر یہ نہیں تو پھر شطرنج کی بساط بچھی نظر آئے گی۔ شطرنج نہیں تو چوسر۔ چوسر نہیں تو گنجفہ۔ حقے کی نے کبھی اس بزرگ کے سامنے کبھی اس بزرگ کے سامنے[2]۔ | “ |
” | ایک معزز و معمر بزرگ بخار کی شکایت لے کر آئے۔ نسخہ لکھا اور کہا کہ اس سے پسینہ آئے گا اور بخار اُتر جائے گا۔ نسخہ استعمال کیا مگر نہ پسینہ آیا نہ بخار اُترا۔ نسخہ میں ترمیم کی۔ پھر بھی نہ پسینہ آیا، نہ بخار اُترا۔ وہ بزرگ شکایت لے کر مطب میں حاضر ہوئے۔ حکیم صاحب نے غصے میں انہیں دیکھا اور گرج کر کہا کہ آپ نرے گدھے ہیں۔ اس غیرت مند بزرگ نے یہ سنا تو پسینہ پسینہ ہوگئے۔ تب حکیم صاحب نے نرمی سے کہا کہ صاحب میرے کہے کا برا مت مانیئے۔ مگر آپ کا علاج یہی تھا۔ پسینہ آگیا ہے۔ اب انشاء اللہ بخار اُتر جائے گا اور بخار اُتر گیا[3]۔ | “ |