دوبارہ شادی یا عقد ثانی ایک ایسی شادی ہے جو سابقہ ازدواجی اتحاد کے اختتام کے بعد انجام پزیر ہوتی ہے۔ جیساکہ طلاق یا بیوگی کی صورت حال میں ممکن ہے۔ کچھ افراد دوسرے افراد کے مقابلے دوبارہ شادی کرنے کے زیادہ امکانات رکھتے ہیں۔ امکانات سابقہ رشتے داری کے پیش نظر مختلف ہو سکتے ہیں (مثلًا طلاق شدگی بہ مقابلہ بیوگی)، نئے عاشق مزاج قسم کے تعلقات قائم کرنے سے دلچسپی، جنس، نسل، عمر اور اس کے علاوہ دیگر عوامل۔ جو لوگ دوبارہ شادی نہیں کرنے کو ترجیح دیتے ہیں وہ متبادل ترتیبات کو اختیار کر سکتے ہیں جیسے کہ ہم باشی یا جداگانہ رہائشی قربت۔ دوبارہ شادی کئی دماغی اور جسمانی فوائد فراہم کرتا ہے۔ تاہم حالانکہ دوبارہ شادی شدہ افراد ان افراد سے بہتر صحت رکھتے ہیں جو دوبارہ ساجھے دار نہیں کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں، وہ لوگ پھر بھی ان اصحاب سے عمومًا بدتر صحت رکھتے ہیں جو مسلسل شادی شدہ رہے ہیں۔

طلاق یا علیحدگی کے بعد دوبارہ شادی

ترمیم

جیساکہ 1995ء میں صورت حال تھی، شخصی اور سیاق و سباق کے عناصر کے پیش نظر ریاستہائے متحدہ امریکا کے 50% تک جوڑے اپنی پہلی شادی طلاق میں یا مستقل علیحدگی ختم کر چکے تھے (یعنی یہ زوجین قانونی طور پر طلاق شدہ نہیں ہے مگر وہ نہ تو ساتھ رہتے ہیں اور نہ ہی اثاثہ جات بانٹتے ہیں۔[1] زوجین عمومًا اپنی شادی ختم کر دیتے ہیں کیوں کہ وہ اپنی ساجھے داری کے ایام میں غم گینی اور اداسی کی کیفیت میں مبتلا ہوتے ہیں؛ تاہم حالانکہ یہ زوجین اپنے ساتھی سے کسی بھی امید کا کوئی امکان نہیں رکھتے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ شادی کے سماجی رواج ہی سے ترک تعلق ہو چکے ہیں۔ طلاق شدہ لوگوں کی اکثریت (تقریبًا 80% آبادی) پھر سے شادی کر ہی لیتی ہے۔[2] اوسطًا وہ طلاق کے حصول کے چار سال کے اندر ہی پھر سے شادی کے بندھن کا حصہ بن جاتے ہیں؛ جواں سال بالغ لوگ بڑی عمر کے لوگوں کے مقابلے زیادہ جلدی شادی کرنے کا رجحان رکھتے ہیں۔[3] یہ دیکھا گیا ہے کہ آدھے لوگ 5 سال کے اندر دوبارہ شادی کرتے ہیں اور 10 سال تک طلاق یافتہ 75% لوگ دوبارہ شادی شدہ ہو چکے ہوتے ہیں۔[1]

لوگ دوبارہ شادی کرنے پر اس لیے آمادہ ہوتے ہیں کیوں کہ وہ خود کو سابقہ شادی کے خاتمے کے ذمے دار نہیں سمجھتے۔ عمومًا یہ لوگ اس بات پر زیادہ یقین رکھنے پر مائل ہوتے ہیں کہ ان کے ساجھے دار کا رویہ ہی طلاق کی وجہ بنا اور خود کی حرکتوں کے اثرات کو کم تر اثرانگیز پیش کرتے ہیں۔[4] اس وجہ سے وہ پُر امید رہتے ہیں کہ نئی ساجھے داری بہتر نتائج پیش کرے گی۔[5]

2013ء میں یو ایس اے ٹوڈے کی جانب سے معلوماتی تجزیے سے پتہ چلا ہے کہ ریاستہائے متحدہ میں دوبارہ شادیاں پچھلے 20 سالوں میں 40 فی صد کم ہوئے ہیں۔[6]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب Bramlett, M. D.، & Mosher, W. D. (2002)۔ Cohabitation, marriage, divorce, and remarriage in the United States. Vital and Health Statistics. Series 23, Data from the National Survey of Family Growth, (22)، 1-93. PMID 12183886
  2. Cherlin, A. J. (1992)۔ Marriage, divorce, remarriage (rev. and enl. ed.)۔ Social trends in the United States. Cambridge, MA, US: Harvard University Press. As cited in Bradbury, T. N.، & Karney, B. R. (2010)۔ Intimate Relationships. W. W. Norton & Company.
  3. Wilson, B. F.، & Clarke, S. C. (1992)۔ Remarriages: A demographic profile. Journal of Family Issues, 13(2)، 123 -141. doi:10.1177/019251392013002001 PMID 12343618
  4. Amato, P. R.، & Previti, D. (2003)۔ People’s Reasons for Divorcing. Journal of Family Issues, 24(5)، 602 -626. doi:10.1177/0192513X03254507
  5. Bradbury, T. N.، & Karney, B. R. (2010)۔ Intimate Relationships. W. W. Norton & Company.
  6. remarriage rates