دوست محمد خان (بھوپال)
دوست محمد خان اورکزئی (سنہ 1657ء-1728ء) مرکزی بھارت کی ریاست بھوپال کے بانی تھے۔[1] انھوں نے مدھیہ پردیش ریاست کا دار الحکومت بھوپال جیسا جدید شہر قائم کیا تھا۔[2] ایک تہرائی پٹھان[3][4] کی حیثیت سے 1703ء میں دوست محمد خان نے مغل فوج میں شمولیت اختیار کی ۔ بہت تیزی کے ساتھ وہ درجہ بندی کی صفیں پھلانگتا ہوا مرکزی بھارت کے شہر مالوا میں تعینات ہوا۔ شہنشاہ اورنگ زیب کی وفات کے بعد دوست محمد خان نے سیاسی طور پر غیر مستحکم مالوا کے کئی محاذوں پر خدمات سر انجام دیں۔[5] اس نے منگل گڑھ کے شاہی خاندان میں شادی کی اور رانی دؤگر کے مرنے کے بعد اس کی ریاست پر قبضہ کر لیا۔ مالوا کے مقامی راجپوت سربراہوں کی مدد سے اس نے مغل سلطنت کے خلاف بغاوت کر دی۔ شکست اور زخموں سے چور جنگ کے اختتام پر اس نے زخمی سید حسین علی براہا کی مدد کی جو سید برادران میں سے ایک تھا۔ اس مدد نے اس کے لیے نئی دوستی کا در کھولا۔ سید برادران مغل دربار کے بااثر حکمران تھے۔ دوست محمد خان نے مالوا کئی ریاستوں کو اپنی حکومت میں شامل کیا۔ خان نے رانی کملا پتی جو گوند راجدھانی کی حکمران تھی، کے لیے اجتماعی خدمات بھی فراہم کیں اور اس کے عوض اس کو چھوٹا سا علاقہ بھوپال ملا۔ رانی کی موت کے بعد اس کے بیٹے کو قتل کر کے اس نے گوند راجدھانی پر قبضہ کر لیا۔[6] 1720ء کے ابتدائی دور میں اس نے بھوپال کے گاؤں کو ایک مضبوط شہر میں بدل دیا تھا اور نواب کے لقب کا دعوی کر دیا جو ہندوستان کی شاہی ریاستوں کے مسلم حکمران استعمال کیا کرتے تھے۔[7] دوست محمد خان مغل سلطنت کے مغربی فرنٹئیر (موجودہ وفاقی انتظامیہ قبائلی علاقہ جات، پاکستان) تہرہ کے علاقہ میں پیدا ہوا۔[8] ان کے والد نور محمد خان میر خیل کے اورکزئی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔[9] یہ قبیلہ تہرا اور پشاور کے علاقہ میں رہتا ہے۔جس کو آج کل خیبر پختونخوا پاکستان کا ضلع اورکزئی کہا جاتا ہے ۔ ک دوست محمد خان نے 1728ء میں بیماری کی حالت میں وفات پائی۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے جسم پر 30 سے زائد نشانات تھے جو ان کو مختلف لڑائیوں، جنگوں میں لگے تھے۔[5]
دوست محمد خان (بھوپال) | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1672ء وادی تیراہ |
وفات | سنہ 1728ء (55–56 سال) بھوپال |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | مغل مراٹھا جنگیں |
درستی - ترمیم |
حوالہ جات
ترمیمویکی ذخائر پر دوست محمد خان (بھوپال) سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
- ↑ John Falconer؛ James Waterhouse (2009)۔ The Waterhouse albums: central Indian provinces۔ Mapin۔ ISBN:978-81-89995-30-0
- ↑ Fodor's India, Nepal and Sri Lanka, 1984۔ Fodor's۔ 1984۔ ص 383۔ ISBN:978-0-679-01013-5
- ↑ "Bhopal"۔ دائرۃ المعارف بریٹانیکا۔ Encyclopædia Britannica Inc.۔ 2011۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-11-04
- ↑ India's princely states: people, princes and colonialism۔ Routledge studies in the modern history of Asia (Volume 45) (illustrated ایڈیشن)۔ روٹلیج۔ 2007۔ ص 153۔ ISBN:978-0-415-41541-5
{{حوالہ کتاب}}
: الوسيط غير المعروف|editors=
تم تجاهله (معاونت) - ^ ا ب William Hough (1845)۔ A brief history of the Bhopal principality in Central India۔ Calcutta: Baptist Mission Press۔ ص 1–4۔ OCLC:16902742
- ↑ Jogendra Prasad Singh؛ Anita Dharmajog (1998)۔ City planning in India: a study of land use of Bhopal۔ Mittal Publications۔ ص 28–33۔ ISBN:978-81-7099-705-4
- ↑ Somerset Playne؛ R. V. Solomon؛ J. W. Bond؛ Arnold Wright (1922)۔ Arnold Wright (مدیر)۔ Indian states: a biographical, historical, and administrative survey (illustrated, reprint ایڈیشن)۔ Asian Educational Services۔ ص 57۔ ISBN:978-81-206-1965-4
- ↑ Abida Sultaan (2004)۔ Memoirs of a rebel princess (illustrated ایڈیشن)۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ ص xli-11۔ ISBN:978-0-19-579958-3
- ↑ "Mirazi" is probably of "Mir Aziz". (Shaharyar M. Khan, 2000)