پٹھان قبیلہ ٹانک و ڈیرہ کی تاریخ میں جتنا معروف یہ قبیلہ ہے شاید ہی کوئی ہو لیکن یہ دولت خیل سے نہیں بلکہ اپنی ایک ذیلی شاخ کٹی خیل سے معروف ہے۔

کہتے ہیں کہ لودی کے تین بیٹے تھے ایک نیازی، دوسرا سیانڑی تیسرا دوتانی.. سیانڑی کے آگے دو بیٹے تھے ایک پڑانگی دوسرا اسمعیل.. اسمعیل کے آگے دو بیٹے تھے ایک لوہانی دوسرا سوری.. اس لوہانی نے دو شادیاں کیں. اول زوجہ سے مروت پیدا ہوئے جن کو سپین لوہانی کہتے ہیں جبکہ زوجہ دوم سے جو اولاد ہوئی وہ تور لوہانی کہلائی. تور لوہانی میں دولت خیل، میاں خیل اور تتور شامل ہیں۔ اس آرٹیکل میں ہم دولت خیلوں کا ذکر کریں گے باقی ہر آئندہ آرٹیکل میں بات کریں گے. کہتے ہیں کہ یہ سارے لوہانی کٹہ واز کے علاقے میں رہتے تھے جہاں پر سپین لوہانیوں کا سلیمان خیل غلجیوں سے کسی عورت کے تنازع پر جھگڑا ہو گیا جس کے نتیجے میں تور و سپین لوہانیوں نے ملکر غلجیوں کے خلاف جنگ لڑی لیکن شکست انکا مقدر بنی اور یوں دولت خیل اپنے دیگر لوہانی قبیلوں کے ساتھ براستہ گومل ٹانک و دامان آ گئے جہاں پر پڑانگی و سروانی قبائل آباد تھے جنھیں شکست دیکر انھوں نے ٹانک و دامان پر قبضہ کیا. اس علاقے کو آپس میں تقسیم کر لیا. وقت گزرنے کے بعد دولت خیلوں کی مروتوں سے ان بن ہو گئی دولت خیلوں نے دیگر لوہانیوں کے ساتھ ملکر مروتوں کو ٹانک سے نکال باہر کیا. ٹانک پر اب خان زمان خان دولت خیل خود مختار و سردار تھے۔ اس دولت خیلوں سے سردار قتال خان نامور ہوا جس کا خاندان بعد میں کٹی خیل کہلایا. اور اسی قتال خان کا بیٹا خان زمان خان ٹانک کی تقسيم کے زمانے میں تمام لوہانیوں کا سردار تھا۔ لوہانی قبیلہ کی سرداری کٹی خیلوں میں سولہویں صدی سے چلی آتی ہے۔ جس کا ثبوت ہمیں سترھویں صدی عیسوی کی کتاب اسرار الافاغنہ سے بھی ملتا ہے جس میں ملک فتح خان کٹی خیل کا لوہانیوں کا سردار ہونا لکھا ہے.. کچھ لوگ اکبر بادشاہ کے زمانے میں بنگال میں گزرنے والے قتلو خان لوہانی کو کٹی خیلوں کا سردار لکھتے ہیں۔ جو شیر کے زمانے میں ہندوستان گیا۔ لیکن میری ذاتی رائے میں وہ قتال خان عرف قتلو لوہانی بہت بعد کی بات ہے.. خان زمان خان کے بعد کٹی خیلوں میں قتال خان مشہور و معروف ہوا جو احمد شاہ ابدالی کے زمانے گذرا. کہتے ہیں کہ اسی قتال خان نے دولت خیلوں کو قابو کرنے کے لیے بلوچ اور سندھ سے سپاہی بھرتی کیے. جس سے دولت خیلوں میں شکوک و شبہات اور نااتفاقی کا عنصر پیدا ہونا شروع ہوا. جس پر قبیلہ میں تصادم ہوا کافی لوگ مارے گئے اس جنگ میں قتال خان بھی مارا گیا۔ قتال خان کا بیٹا سرور خان بھاگ کر کابل درانی حکمرانوں سے اعانت کا طالب ہوا. سرور خان کے ساتھ تیمور شاہ درانی نے ایک بھرپور لشکر بھیجا جس نے ٹانک آ کر دولت خیلوں کو تباہ و برباد کرکے سرور خان کو سرداری کے منصب پر بحال کیا. جس کے بعد سرور خان نے اپنی قوم دولت خیلوں کی ساری شاخوں کو بیدردی نے تباہ کیا قتل عام کی بھرمار کی. جو دولت خیل جان بچا کر بھاگ سکتے تھے بھاگ گئے۔ کہتے ہیں کہ حالات یہ ہو گئے کہ ٹانک ویران ہو گیا۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے سرور خان نے جٹوں کو بطورِ مزارع یہاں آباد کیا. جس کی وجہ سے آج ٹانک میں ہمیں سرائیکی بولنے والے اقوام کے لوگ ملتے ہیں۔ یوں اس طرح دولت خیلوں کی تاریخ اب سکڑ کر ایک ذیلی شاخ کٹی خیلوں تک محدود ہو گئی۔ درانی کے بعد سکھوں کے زمانے میں ٹانک کی حکمرانی نونہال سنگھ نے کٹی خیلوں سے چھین کر علی زئیوں اور درانیوں میں تقسیم کردی مختصر سا حصہ کٹی خیلوں کے لیے چھوڑا بعد میں جب انگریز آیا تو اس نے نوابین ٹانک کی عمل داری کو بحال کیا. نوابین ٹانک خود مختار ریاست نہ تھے۔ بلکہ ان کی حیثیت علاقے کے سربراہ کی تھی. جو آج تک جاری ہے۔ نوابین ٹانک پر الگ آرٹیکل پہلے ہی لکھا جا چکا ہے۔ ان کی تاریخ پر الگ ایک کتاب کی ضرورت ہے۔ میانوالی کے نیازیوں میں یہ بات مشہور ہے کہ نوابین ٹانک کے پاس تمام نیازیوں کے شجرہ کا ریکارڈ موجود ہیں۔ آخر یہ بے پر کی کس نے کس زمانے میں کیونکر اڑائی؟ ؟؟؟ اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں۔ اقبال خان نیازی صاحب نے بھی اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔ لیکن کوئی حوالہ نہیں دیا۔

اگر ایسی بات ہوتی تو اپنی قوم کٹی خیل، دولت خیل کا تو ہوتا. یا پھر اپنے پڑوسی ہم جد لوہانی قبائل یعنی مروت، میاں خیل، تتور تو اس بات کے گواہ ہوتے. آج تک کسی مروت یا میاں خیل سے نہیں سنا کہ انھوں نے ٹانک سے شجرہ حاصل کیا ہے.. اور تو اور پڑوسی قبائل یعنی کنڈی، وزیر محسود کا شجرہ ریکارڈ تو ہوتا.. کیا نیازی نوابین ٹانک کے زیادہ سگے تھے جو انھوں نے فقط نیازیوں کا ریکارڈ رکھا؟ یا نوابین ٹانک نیازیوں کے بھاٹ تھے جو نیازیوں کا ریکارڈ رکھتے. نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ لوگ جو شجرہ لے کر جاتے وہ ٹھپا لگا دیتے. اس ٹھپا کی کیا کہانی ہے میں ابھی تک جاننے کی کوشش کررہا ہوں میں نے بردار محترم نوابزادہ عبد الوہاب خان آف ٹانک سے بھی اس سلسلے بات کی ہے لیکن فی الحال ان کا موقف نہیں مل سکا. اسی آس پر گولیوالی کے نیازیوں نے بھی کوشش کرتے ہوئے ٹانک والوں سے شجرہ نکلوانے کی سعی کی تو انھیں وہ شجرہ لکھ کر دے دیا گیا ہے جو حیات افغانی میں موجود ہے آگے پیچھے کا انھیں کوئی علم نہیں. پس جو جھوٹے شجرہ بنا کر ٹانک والوں کے ٹھپے لگوا کر اس کو سند سمجھتے ہیں وہ سراسر جھوٹ اور ڈراما بازی ہے۔ بہرحال دولت خیل و ٹانک کے نوابین کی مختصر تاریخ یہی تھی جو میرے علم میں آئی ہے۔ کچھ معلومات جان بوجھ کر نظر انداز بھی کردی ہیں کیونکہ انکا ذکر یہاں اضافی تھا۔ دولت خیلوں یا نوابین ٹانک کٹی خیلوں پر کوئی باقاعدہ کتاب مجھے دستیاب نہیں ہو سکی اور جہاں تک میری معلومات ہیں ایسی کوئی کتاب فی الحال تحریر ہی نہیں ہوئی. یہاں پر ایک اور بات بھی حیران کن ہے کہ میجر ریوارٹی نے اپنی کتاب نوٹس آن افغانستان میں جہاں ٹانک و ڈیرہ اسماعیل خان کے دیگر پشتون قبائل کا ذکر الگ الگ صراحت سے درج کیا ہے وہیں اتنی شاندار تاریخ رکھنے والے نوابین ٹانک کا ذکر بس اس نے فقط ایک پیراگراف میں کرکے آگے بڑھ گیا ہے.. آخر کیوں؟؟ کچھ اسی طرح کا معاملہ شیر محمد خان گنڈاپور نے بھی اپنی کتاب تاریخ خورشیدِ جہاں میں کیا. انھوں نے دولت خیلوں کی تاریخ پر بالخصوص نوابین ٹانک کی قدامت پر اس طرح نہیں لکھا جس طرح لکھنے کا حق تھا۔ کیونکہ وہ تو نوابین ٹانک کے علاقے سے تعلق رکھنے والے اور علم التاریخ پر گہری نظر رکھتے تھے[1] مشہور شخصیات میں ضرب عضب کے دوران وزیرستان میں آپریشن کرنے والے جنرل طارق خان اور مشہور اداکارہ مرینہ خان شامل ہیں..

حوالہ جات ترمیم

  1. بہرحال مزید دلچسپی رکھنے والے افراد درج ذیل کتابوں سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں گزٹیر آف ڈیرہ اسماعیل خان تواریخ قسمت ڈیرہ اسماعیل خان حیات افغانی