دیہیا کاہنہ

بربر یودقا ملکہ

دیہیا کاہنہ (انگریزی: Dihya) ایک شاویہ بربر جنگجو اور ملکہ تھی جس نے مغرب پر مسلمانوں کے حملے کی مزاحمت کی۔ وہ مذہبی اور عسکری رہنما تھی اور اس کا تعلق نومیدیا سے تھا جہاں اس نے اپنے علاقے کو بچانے کے لیے مسلمانوں سے ٹکر لی تھی۔ اس کی ولادت 7ویں صدی کے ابتدا میں ہوئی[1] اور وفات موجودہ اجزائر میں اسی صدی کے اخیر میں ہوئی۔

دیہیا کاہنہ
Dihya memorial in خنشلہ، الجزائر
Early seventh century
وفات703 CE
Biskra
تدفینخنشلہ

حالات زندگی اور مذہب ترمیم

اس کے نام میں اختلاف ملتا ہے: دیا۔ دیہیہا،دہیہ، دہایا یا دیاما۔[2] عربی متون میں اس کو کاہنہ (قسیس) سے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ یہ لقب اسے مسلمانوں نے دیا تھا کیونکہ وہ ان کے خلاف جادو مستقبل کے حالات بتا دیا کرتی تھی۔ اس نے 5 برس تک (695ء-700ء) بربر پر آزادانہ حکومت کی۔ لیکن اس کے بعد عرب کے مسلمان کمانڈر موسیٰ بن نصیر ایک مضبوط فوج لے کر اس پر حملہ آور ہوئے اور اسے شکست دی۔ ان کی لڑائی الجم کے مقام پر ہوئی اور ماری گئی۔ جس کنوئیں کے پاس وہ ماری گئی وہ اب اسی کی طرف منسوب ہے۔[3]

19ویں صدی کے متون میں اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا وہ یہودی بربر تھی یا اس کا قبیلہ ہی بربر مذہب پرست ہو گیا تھا۔[4] ابو بکر العربی نے دعوی کیا ہے کہ وہ سفر میں اپنے ساتھ ایک مجسمہ رکھتی تھی۔ محمد طالبی اور گبرييل كیمپس کا دعوی ہے کہ وہ مجسمہ ایک مسیحی علامت کے طور پر رکھا جاتا تھا۔ وہ یا یو مسیح کا مجسمہ تھا یا کنواری مریم کا خود رانی کے محافظ کسی صوفی کا تھا۔ محمد حسین فنطر کا ماننا ہے کہ وہ مجسمہ کسی بربر دیوتا کا تھا اور اس طرح دیہیا ایک کافر تھی۔ لیکن اتنا طے ہے کہ دیہیا کا مسیحی ہونا بعید از قیاس ہے۔[5]

ابن خلدون نے بربر یہودی قبائل کے سلسلہ میں جراوہ کا بھی تذکرہ کیا ہے اور اسی وجہ سے ان کے یہودی بننے کا خیال ابھرتا ہے۔ ہیرشبرگ اور طلبی نے ذکر کیا ہے کہ اب خلدون نے اس وقت کا تذکرہ کیا ہے جب رومیوں اور بازنطینیوں کی آمد نہیں ہوئی تھی۔ اور اس زمانہ کے اخیر یں شاید انھوں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا ہو۔

حوالہ جات ترمیم

  1. Phillip C. Naylor (2009)۔ North Africa: A History from Antiquity to the Present (بزبان انگریزی)۔ University of Texas Press۔ صفحہ: 65۔ ISBN 978-0-292-77878-8 
  2. See discussion of these supposed names by Talbi (1971)۔
  3. Charles André Julien، Roger Le Tourneau (1970)۔ Histoire de L'Afrique du Nord۔ Praeger۔ صفحہ: 13 
  4. See Hirschberg (1963) and Talbi (1971)۔
  5. Yves Modéran (2005)۔ "Kahena. (Al-Kâhina)"۔ Kahena۔ Encyclopédie berbère۔ 27 | Kairouan – Kifan Bel-Ghomari۔ Aix-en-Provence: Edisud۔ صفحہ: 4102–4111۔ ISBN 978-2744905384