ابن خلدون (پیدائش: 1332ء -وفات: 1406ء) عالم اسلام کے مشہور و معروف مورخ، فقیہ، فلسفی اور سیاستدان تھے۔ ان کا مکمل نام ابوزید عبد الرحمن بن محمد بن محمد بن خلدون ولی الدین التونسی الحضرمی الاشبیلی المالکی تھا۔[4] وہ تیونس میں پیدا ہوئے اور تعلیم سے فراغت کے بعد تیونس کے سلطان ابوعنان کے وزیر مقرر ہوئے، تاہم درباری سازشوں سے تنگ آ کر حاکم غرناطہ کے پاس چلے گئے۔ یہ سر زمین بھی راس نہ آئی تو مصر آ گئے اور جامعہ الازہر میں درس و تدریس پر مامور ہوئے۔ مصر میں انھیں فقہ مالکی کا منصبِ قضا تفویض کیا گیا۔ اسی عہدے پر انھوں نے وفات پائی۔

ولی الدین عبد الرحمن ابن خلدون
(عربی میں: عبد الرحمٰن بن مُحمَّد بن خلدون الحضرمي الامازيغي يتقن العربية ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش 27 مئی 1332 ء / 732 ھ تیونس
تونس شہر [1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 19 مارچ 1406 ء / 808 ھ قاہرہ
قاہرہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ زیتونہ   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ماہر انسانیات ،  مورخ ،  منصف ،  آپ بیتی نگار ،  ماہرِ عمرانیات ،  ماہر معاشیات ،  فلسفی ،  سیاست دان ،  مصنف [2]،  شاعر [3]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل معاشیات ،  معاشریات ،  فلسفہ ،  بشریات ،  سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابن خلدون کو تاریخ اور عمرانیات کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ انھوں نے العبر کے نام سے ہسپانوی عربوں کی تاریخ اِرقام کی تھی، جو دو جلدوں میں شائع ہوئی۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ مقدمۃ فی التاریخ ہے، جو مقدمہ ابن خلدون کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مقدمہ تاریخ، سیاست، عمرانیات، اقتصادیات اور ادبیات کا گراں مایہ خزانہ ہے۔

تاریخ

ترمیم

ابنِ خلدون کا خاندان پہلے جزیرہ نما عرب سے آکر اندلس میں آباد ہوا۔ پھر وہاں سے تونس آئے اور 732ھ/1332ء میں ابنِ خلدون پیدا ہوئے۔

انھوں نے چھوٹی ہی عمر میں قرآن، حدیث، فقہ، فلسفہ، ادب اور تاریخ میں کمال پیدا کر لیا۔ ان کو علم و فضل میں بہت شہرت حاصل ہوئی۔ تلمسان کے بادشاہ نے ان کی بہت تعظیم کی اور اس کو اپنا کاتب مقرر کیا۔ پھر کسی وجہ سے ایسا ناراض ہوا کہ ان کو قید میں ڈال دیا۔ چار سال بعد بادشاہ فوت ہو گیا تو 764ھ ابنِ خلدون وہاں سے رہا ہو کر غرناطہ پہنچے۔

امارتِ غرناطہ میں سلطان ابوعبد الله محمد الخامس الغني بالله نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ ابنِ خلدون اپنی بقیہ عمر غرناطہ ہی میں بسر کرنا چاہتے تھے، لیکن بعد میں ایسے واقعات پیش آئے کہ وہ پھر تلمسان چلے گئے اور اُسی کے ایک نواحی قلعے میں اس نے اپنی تاریخ اور اُس کا مشہور کتاب، ’مقدمہ‘ کو اِرقام کرنا شروع کیا۔

چار برس تونس میں رہ کر ابنِ خلدون اسکندریہ ہوتا ہوا قاہرہ پہنچے اور دنیا کی مشہور اسلامک یونیورسٹی جامعہ الازہر میں علومِ اسلامی کی تعلیم و تدریس میں میں مشغول رہے۔ اُن کے علم کی شہرت نے اُن کو سلطانِ مصر کے دربار میں پہنچا دیا۔ سلطان سیف الدین برقوق نے 786ھ میں انھیں فقہ مالکیہ کا قاضی مقرر کر دیا۔ اُس کے عدل و انصاف اور مہارتِ قانون کی وجہ سے سلطان اور علما سب اُس کے گرویدہ ہو گئے۔

اُسی زمانے میں اُس کے اہل و عیال تونس سے سمندری جہاز میں مصر آ رہے تھے اور ابنِ خلدون سالہاسال کے بعد اُن سے ملاقات کے خیال سے بے حد خوش تھے کہ سمندر میں طوفان آنے کی وجہ سے جہاز غرق ہو گیا۔ ابنِ خلدون کو اس حادثے سے جو صدمہ ہوا ہوگا، وہ ظاہر ہے لیکن انھوں نے ہمت نہ ہاری اور اپنے کاموں میں دن رات محنت سے مشغول رہے۔

789ھ میں انھوں نے حجاز جا کر حج کیا اور واپس قاہرہ میں آ کر اپنی عظیم الشان تصنیف ’تاریخ ابنِ خلدون‘ مکمل کی اور اُس کو سلطان عبد العزیز کی خدمت میں پیش کر کے گراں بہا انعامات و عطیات حاصل کیے۔

803ھ /1401ء میں مصر کے سلطان نے انھیں ایلچی کا عہدہ دے کر شام کے شہر دمشق بھیجوایا جہاں وہ امیر تیمورسے ملاقات کی جب تیمور دمشق کا محاصرہ کر رہا تھا۔ ابن خلدون سات ہفتوں تک اُس محصور شہر میں رہے، انھیں تیمور کے ساتھ مکالمہ کرنے کے لیے رسیوں کے ذریعہ شہر کی فصیل سے نیچے اترنا پڑا ۔ تیمور کی خیمہ گاہ میں ملاقاتوں کا ایک تاریخی سلسلہ جاری ہوا جس کو اُس نے اپنی سوانح عمری میں بڑے پیمانے پر ذکر کیا ہے۔ تیمور نے اس سے المغرب کی سرزمینوں کے حالات کے بارے میں تفصیل سے سوال کیا۔ ان کی درخواست پر ابنِ خلدون نے اس کے بارے میں ایک لمبی رپورٹ بھی اِرقام کی تھی۔ جیسے ہی انھوں نے تیمور کے ارادوں کو سمجھا ، ا نھوں نے تاتار کی تاریخ پر یکساں وسیع پیمانے پر ایک رپورٹ مرتب کیا ،اور پھر صحیح سلامت مصر وآپس آنے پر اُس نے فاس کے مرینی سلطنت کے حکمرانوں کو تیمور کی رپورٹ بھیجوا بھی دیا۔

ابنِ خلدون نے اگلے پانچ سال قاہرہ میں اپنی سوانح عمری اور اپنی دنیا کی تاریخ مکمل کرتے ہوئے استاد اور جج کی حیثیت سے کام کیا۔ اندلس اور تونس کے لوگوں کو اس پر بے حد فخر تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ابنِ خلدون اپنے وطن میں آکر رہے، لیکن مصر کی خاک کچھ ایسی دامن گیر ہوئی کہ وہ آخر 808ھ/1406ء میں وہیں انتقال فرما گئے۔

مقدمہ اور تاریخ ابن خلدون کا اردو ترجمہ

ترمیم

یہ ’مقدمہ‘ یورپ کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور اہلِ علم اُس کو دنیا کی چند بڑی بڑی کتابوں میں شمار کرتے ہیں۔

اردو میں مقدمہ ابن خلدون کا ترجمہ معروف ادیب اور شاعر ڈاکٹر ابوالخیر کشفی نے کیا ہے۔ اسے دار الاشاعت کراچی نے شائع کیا ہے۔ ترجمہ 534 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ مولانا راغب رحمانی نے بھی ترجمہ کیا ہے جسے نفیس اکیڈمی کراچی نے شائع کیا ہے۔

ابن خلدون پر ایک نظر

ترمیم

”ابن خلدون پر ایک نظر“ دراصل محمد عثمان بٹ کی اہم تحریر ہے، جو 2021ء میں چار اقساط[5] [6][7][8]میں شائع ہوئی۔ یہ مضمون ابن خلدون کی شخصیت، اُن کی تصانیف اور اُن کے فلسفہ اور تصورات کو نہایت سادہ انداز سے پیش کرتا ہے۔ محمد عثمان بٹ نے ابن خلدون کے نظریۂ تاریخ، نظریۂ عمرانیات، نظریۂ ریاست، نظریۂ عصبیت، نظریۂ سیاست، نظریۂ تعلیم، نظریۂ خلافت، نظریۂ ماحول، تصورِ جغرافیہ، تصورِ قانون، تصورِ علوم، نظریۂ معاشیات، نظریۂ تضاد اور نظریۂ مابعدالطبیعیات کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ربط: https://d-nb.info/gnd/118639773 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
  2. عنوان : Library of the World's Best Literature — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.bartleby.com/lit-hub/library
  3. مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.bartleby.com/lit-hub/library
  4. مقدمہ ابن خلدون صفحہ 23
  5. محمد عثمان بٹ (29 مئی 2021ء)۔ "ابن خلدون پر ایک نظر۔قسط نمبر1"۔ اُردو پوائنٹ۔ پاکستان۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست 2023ء 
  6. محمد عثمان بٹ (31 مئی 2021ء)۔ "ابن خلدون پر ایک نظر۔ قسط نمبر 2"۔ اُردو پوائنٹ۔ پاکستان۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست 2023ء 
  7. محمد عثمان بٹ (2 جون 2021ء)۔ "ابن خلدون پر ایک نظر۔ قسط نمبر 3"۔ اُردو پوائنٹ۔ پاکستان۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست 2023ء 
  8. محمد عثمان بٹ (4 جون 2021ء)۔ "ان خلدون پر ایک نظر۔ آخری قسط"۔ اُردو پوائنٹ۔ پاکستان۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست 2023ء 

بیرونی روابط

ترمیم
  • ڈاؤن لوڈ تاریخ ابن خلدون، مقدمہ کے ساتھ
  • https://archive.aramcoworld.com/issue/197805/the.man.who.met.tamerlane.htm