راجا رسالو دوسری صدی عیسوی کا ایک گجر بادشاہ بادشاه تھا۔ جو راجہ سالباہن کا بیٹا تھا۔یہ گجر پنوار خاندان سے تعلق رکھتا تھا بھاٹوں کے لکھے ہوئے کتبوں کے مطابق یہ بکرمہ جیت کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جسے بھاٹ کے شجروں میں گجر لکھا گیا ہے یا پوڑ تھے۔ جو کے گجروں کی ذیلی شاخیں ہیں۔ آج بھی پاکستان اور بھارت میں ان کی کثیر تعداد ہے ۔ راجا رسالو کی ماں کا نام رانی لوناں تھا۔[1] راجا رسالوگندھارا تہذیب کا ایک نامور کردار ہے۔ راجا رسالو راجا سالباہن کا بیٹا تھا۔ سالباہن کی حکومت سیالکوٹ سے راولپنڈی تک تھی۔راجا سالباہن کی دوسری بیوی اچھراں تھی۔ جس کے نام لاہور میں اچھرہ پڑا ہے اور رانی اچھراں سے ایک بیٹا پورن بھگت بھی تھا۔سیالکوٹ میں ایک گلی اور محلے کا نام آج بھی رسالو گجر کے نام سے مشہور ہے۔۔

راجا رسالو کی دستان

ترمیم

ایک دن راجا رسالو میدانِ رجوعیہ میں تھا۔ اس کی غیر حاضری میں اس کی بیوی جو گندگر پہاڑ میں تھی۔ ایک دِیو(راکشس) سے محبت جتا رہی تھی۔ رانی کی مَینا اور طوطا بھی پاس ہی تھے۔۔ مینا کو رانی کی حرکات پسند نہیں آئیں۔ مینا نے رانی کو ملامت کیاتو رانی نے گردن مروڑ کر مینا کو مار ڈالا۔ طوطا وہاں سے اُڑ گیا۔ طوطے نے رجوعیہ پہنچ کر دریائے دوڑ میں اپنے پر ڈبو کر راجا رسالو کے منہ پر پانی ڈالا۔ راجا کو جگا کر طوطے نے رانی کی بیوفائی کی داستان سنائی۔ یہ قصہ سن کر راجا سیدھا گندگر پہنچا۔ اُس کے گھوڑے کے سُموں کے نشان آج بھی ناڑا نزد کھلابٹ کے نالہ میں موجود ہیں۔ اُس نے بیوی اور دیو کو پیار محبت کرتے دیکھ لیا۔ بیوی کو وہیں قتل کر دیا۔ لیکن دیو بھاگ کر غار کے اندر چلا گیا۔ راجا نے ایک پتھر پر اپنی تصویر نقش کی اور اُس پتھر سے غار کا منہ بند کر دیا۔ جب کبھی وہ دیو باہر آنے کی کوشش کرتا تو راجا رسالوکی تصویر دیکھ کر شور کرتے ہوئے واپس غار کے اندر چلا جاتا۔ لوگ عام راویت کرتے ہیں کہ بہت مدت تک گندگر پہاڑ سے ایک خوفناک آواز وقفے سے سنائی دیتی تھی۔ انگریز میجر ایبٹ کے مطابق لوگوں نے انیسویں صدی کے پہلے تین سالوں تک یہ آواز سننے کا قصہ بیان کیا ہے۔[2]

خارجی روابط

ترمیم