ربا
ربا کو الربا اور الربو دونوں طرح لکھا جاتا ہے الربو۔ سود۔ بیاج۔ یہ لفظ قرآن مجید میں با کے بعد واؤ اور واؤ کے بعد الف سے مرقوم ہے ماسوائے سورۃ الروم آیۃ (30:39) کے جہاں باء کے بعد الف سے مرقوم ہے۔ امام راغب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’ راس المال پر جو زیادتی ہو وہ ربا ہے لیکن شرع میں وہ اس زیادتی کے ساتھ مخصوص ہے جو ایک خاص ہی طریقہ پر ہو اور دوسری طرح نہ ہو‘‘۔ تفسیر ماجدی میں ہے: ’’ اہل عرب اس لفظ کو اس زائد رقم کے لیے استعمال کرتے تھے جو قرض خواہ اپنے قرض دار سے مہلت کے معاوضہ میں وصول کرتا تھا۔ اردو میں اس کا ترجمہ سود ہے اور سود کا مفہوم ہر شخص جانتا ہے‘‘۔[1] رباکا لغوی معنی : لغت میں ربا کے معانی زیادتی‘ بڑھوتری اور بلندی ہیں‘ علامہ زبیدی لکھتے ہیں علامہ راغب اصفہانی نے کہا ہے کہ اصل مال پر زیادتی کو ربا کہتے ہیں اور زجاج نے کہا ہے کہ ربا کی دو قسمیں ہیں‘ ایک ربا حرام ہے اور دوسرا حرام نہیں ہے۔ ربا حرام ہر وہ قرض ہے جس میں اصل رقم سے زیادہ وصول کیا جائے یا اصل رقم پر کوئی منفعت لی جائے اور ربا غیر حرام یہ ہے کہ کسی کو ہدیہ دے کر اس سے زیادہ لیا جائے۔[2] علامہ عینی نے ’’ شرح المہذب‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ربا کو الف‘ واؤ یا تینوں کے ساتھ لکھنا صحیح ہے یعنی ربا‘ ربو اور ربی۔[3] ربا کا اصطلاحی معنی : اصطلاح شریعت میں ربا کی دو قسمیں ہیں : ربا النسیۂ (اس کو رباالقرآن بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کو قرآن مجید نے حرام کیا ہے) اور ربا الفضل (اس کو رباالحدیث بھی کہتے ہیں)۔ ربا الفضل یہ ہے کہ ایک جنس کی چیزوں میں دست بدست زیادتی کے عوض بیع ہو‘ مثلا چار کلو گرام گندم کو نقد آٹھ کلو گرام گندم کے عوض فروخت کیا جائے۔[4]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ انوار البیان فی حل لغات القرآن جلد1 صفحہ244 ،علی محمد، سورہ البقرہ آیت 275،مکتبہ سید احمد شہید لاہور
- ↑ تاج العروس شرح القاموس ج 10 ص 143‘ مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ‘ مصر‘ 1306 ھ
- ↑ عمدۃ القاری ج 11 ص‘ 199 مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ‘ مصر 1348 ھ
- ↑ تبیان القرآن،غلام رسول سعیدی،سورۃالبقرہ،آیت275 صفحہ976،فرید بکسٹال لاہور