رخشانی ایک اتحاد محض ایک اتحاد ہے اس کا اہم قبیلہ ماندائی ہے ۔ جو نوشکی کے حکمران کے طور پر بھی پہچانے جاتے ہیں ۔ انکا سردار، سردار خطی خان ماندائی نے بادشاہ ہمایوں کو پناہ دیکر ایک نئی تاریخ رقم کر دی ۔

ﻣﻠﮏ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ماندائی ﺑﻠﻮﭺ:- ﺳﺮﺩﺍﺭ ﻣﻠﮏ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ماندائی ﭼﺎﻏﯽ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ میر ﭘﺴﻨﺪ ﺧﺎﻥ ماندائی ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ، ﻭﻩ ﺍﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻭﺍﻟﺪﺍﯾﺮﺍﻧﯽ ﺣﻤﻠﮧ ﺁﻭﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻌﺮﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺷﮩﯿﺪ ﮨﻮﺋﮯ، ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺑﺰﺭﮒ ﺯﺍﺩﻩ ﺑﮩﻤﻦ ﮐﮯ ﺳﺮﺑﺮﺍﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺮﺍﻧﯽ ﻟﺸﮑﺮ ﻧﮯ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﺴﻨﯽ ﺑﻠﻮﭼﻮﮞ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮧ ﮐﺮﺩﯾﺎ، ﺑﻠﻮﭺ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻧﺎﻃﮯ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﭘﺴﻨﺪ ﺧﺎﻥ ماندائی ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﻤﺮﺍﻩ ﺍﯾﺮﺍﻧﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺟﻨﮓ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﻡ ﺍﭘﻨﺎﯾﺎ . ﻣﻠﮏ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ماندائی ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﭽﺎ شیر جاﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺳﯿﺎﻩ ریک ﻣﯿﮟ ﻣﻘﯿﻢ ﺗﮭﺎ ﺁﻏﺎ ﻧﻮﺭ ﻣﺤﻤﺪ ﺧﺎﺭﻭﺋﯽ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﻘﺮﯾﺒًﺎ 14 ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺳﺮﺩﺍﺭﯼ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﻟﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻨﺘﺸﺮ ﻗﺒﯿﻠﮧ ﮐﻮ ﻣﺘﺤﺪ ﻭﻣﻨﻈﻢ ﮐﯿﺎ . ﻣﻠﮏ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ‏ماندائی ﮐﻮ ﺳﺮﺩﺍﺭﯼ ﺳﻨﺒﮭﺎﻟﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺯﯾﺎﺩﻩ ﻋﺮﺻﮧ ﻧﮧ ﮔﺰﺭﺍ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﻧﮩﯽ ﺩﻧﻮﮞ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮨﻨﺪ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﺨﺖ ﭼﮭﻦ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﻩ ﮐﻤﮏ ﺍﻭﺭ ﭘﻨﺎﻩ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﺳﻨﺪﮪ ﻭ ﺑﻠﻮﭼﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﭼﮭﭙﺘﮯ ﭼﮭﭙﺎﺗﮯ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻋﺎﺯﻡ ﺳﻔﺮ ﮨﻮﺍ، ﺍﺳﯽ ﺍﺛﻨﺎﺀ ﻣﺮﺯﺍ ﮐﺎﻣﺮﺍﻥ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ کابل ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺗﮭﺎ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﻣﻠﮏ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ﺣﺎﮐﻢ ﭼﺎﻏﯽ ﮐﻮ ﺧﻠﻌﺖ ﻭ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﻣﻼ، ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﺍﺩﮬﺮ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮮ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮐﺮﮐﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺣﻀﻮﺭ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺑﮯ ﺣﺪ ﺍﻧﻌﺎﻣﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻧﻮﺍﺯﺷﻮﮞ ﮐﺎ ﻭﻋﺪﻩ ﮐﯿﺎﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ . ﺍﺗﻔﺎﻕ ﺩﯾﮑﮭﺌﮯ ... ﮐﮧ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ... ﮐﺴﻤﭙﺮﺳﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﺑﺪﺭﯼ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﻭ ﺗﻌﺎﻭﻥ ﮐﮯ ﺣﺼﻮﻝ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﻧﻮﺷﮑﯽ ‏( ﮈﺍﮎ ‏) ﮐﮯ ﺭﺳﺘﮯ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﺩﺍﺩﺍ میر جیہند ﺧﺎﻥ ﮐﮯ گھر ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺧﯿﻤﮧ ﺯﻥ ﮨﻮﺍ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﭽﮫ ﺧﺪﺍﻡ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ . ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﻨﺼﺒﺪﺍﺭ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺟﻮ ﺑﻠﻮﭼﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﻗﻠﻌﮧ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﮏ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﮕﻢ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﭘﻮﺭﻩ ﺣﺎﻝ ﺳﻨﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﻭ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﯽ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﯽ . ﻣﻠﮏ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ﮐﻮ ﺟﺐ ﯾﮧ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﻣﯿﺮﮮ ﻗﺒﻀﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺸﻮﺭﻩ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺎﻣﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﻭ ﺍﮐﺮﺍﻡ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﻨﻮﺩﯼ ﺑﮭﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﯾﺎﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﺎﻣﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﺷﻤﻨﯽ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺾ ﻭ ﻏﻀﺐ ﺳﮯ ﻭﺍﺳﻄﮧ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ . ﻣﺸﺎﻭﺭﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﻠﮏ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﺫﯼ ﻭﻗﺎﺭ قوم ﻧﮯ ﯾﮧ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﻩ ﺍﯾﮏ ﻣﻈﻠﻮﻡ، ﺑﮯ ﺧﺎﻧﻤﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﺨﺖ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﺮ ﮔﺰ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯﺍﻭﺭ ﮐﺎﻣﺮﺍﻥ ﮐﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﮨﮯ ‏ ﺟﻮﮐﭽﮫ ﮨﻮﺍ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﯿﮕﺎ ... ﻣﻠﮏ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ﺍﯾﮏ ﻋﻈﯿﻢ ﺑﻠﻮﭺ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺳﮯ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﯿﻤﮧ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻼﻗﺎﺗﯽ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺗﺴﻠﯽ ﺩﯼ ﮐﮧ ﺟﻤﻊ ﺧﺎﻃﺮ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﺁﭖ ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﮞ ﭘﻨﺎﻩ ﻟﯽ ﮨﮯ ﺁﭖ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﻌﺰﺯ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮨﮯ .... ﮨﻢ ﺑﻠﻮﭺ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻋﺰﯾﺰ ﮨﯿﮟ، ﺍﮔﺮﭼﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﮐﺎﻣﺮﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﺍﺣﮑﺎﻣﺎﺕ ﻣﻞ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ، ﻣﮕﺮ ﮨﻢ ﺳﯿﻢ ﻭ ﺯﺭ ﮐﯽ ﻻﻟﭻ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺪ ﺍﺧﻼﻗﯽ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺎﻧﺪﺍﺭ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﮐﻮ ﺩﺍﻏﺪﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ... ﮨﻢ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﺍﻗﺪﺍﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻧﺴﻠﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺷﺮﻣﻨﺪﻩ ﮨﻮﮞ ... ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺭﺳﻮﺍ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ .... ﺁﭖ ﺑﺘﺎﺩﯾﮟ ﮨﻢ ﺁﭖ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ؟ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﻠﮏ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ سات ﺩﻥ ﺗﮏ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﮩﻤﺎﮞ ﺭﮐﮭﺎ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﻭ ﻣﺎﻝ ﺍﻭﺭ ﻋﺰﺕ ﻭ ﺁﺑﺮﻭ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺤﺎﻓﻆ ﻣﺎﻣﻮﺭ ﮐﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺧﺖ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﻩ ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻧﭧ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺗﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﺍﻭﺭ ﻧﮕﺮﺍﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻠﮏ ﺳﯿﺎﻩ ﯾﺎ ﺳﯿﺎﻩ ﮐﻮﻩ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺳﯿﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﻮﺍﻥ ﭼﺎﻩ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ ﻧﺎﺭﻭﺋﯽ، ﺭﯾﮑﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻤﺎﻋﯿﻞ ﺯﺋﯽ ﺑﻠﻮﭼﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻤﻠﮧ ﺳﺮﺩﺍﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﻼﮐﺮ ﻣﺠﻠﺲ ﮐﯽ .. ﺍﺣﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﻭ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺎ ﺑﻠﻮﭼﯽ ﻗﻮﻝ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﭙﺮﺩ ﮐﯿﺎ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﺮﻣﺎﻥ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻃﮩﺮﺍﻥ ﺗﮏ ﺍﺳﮯ ﻋﺰﺕ ﻭ ﺗﮑﺮﯾﻢ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ . ﺑﺎﻵﺧﺮ ﻣﯿﺮ ﭼﺎﮐﺮ ﺧﺎﻥ ﺭﻧﺪ ﮐﮯ ﺑﻠﻮﭺ ﻓﻮﺝ ﮐﯽ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﻭ ﻣﻌﺎﻭﻧﺖ ﺳﮯ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﺩﻭﺑﺎﺭﻩ ﺩﮨﻠﯽ ﮐﺎ ﺗﺨﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﮨﻮﮔﯿﺎ ... ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﻠﻮﭼﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻋﻈﯿﻢ ﮐﻤﮏ ﺑﮩﺎﺩﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺻﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻠﻮﭼﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﮨﻠﯽ ﮐﮯ ﻧﻮﺍﺡ ﺍﻭﺭ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﮐﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ﭘﺮ ﺑﮍﯼ ﺑﮍﯼ ﺟﺎﮔﯿﺮﯾﮟ ﻋﻄﺎ ﮐﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺑﻠﻮﭼﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﮍﯼ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﺑﻠﻮﭼﺴﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻟﺨﺼﻮﺹ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﻮﮔﺌﮯ ... ﮔﻮﯾﺎ ﻣﻠﮏ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ماندائی ﻧﮯ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﻨﺎﻩ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﺭﮨﻨﻤﺎﺋﯽ ﮐﺮﮐﮯ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﺎﻡ ﺭﻭﺷﻦ ﮐﯿﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﭘﻮﺭﯼ ﺑﻠﻮﭺ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺳﺮﺧﺮﻭ ﻭ ﺳﺮﻓﺮﺍﺯ ﮐﺮﺩﯾﺎ . ﺧﻄﯽ دراصل ایک ترک خانہ بدوش تھا جو اپنے جانوروں کو خوراک کھلانے کے لیے ہر سال موجودہ زنگی ناوڑ آیا کرتے تھے ۔ جس کی بہادری اور اخلاق سے متاثر ہو کر اس کا نام رکھا گیا ﺗﮭﺎ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺧان گشکوری رقمطراز ہے کہ 'آپ بھی اپنے قومی دستہ کے سات باقی بلوچوں کے ہمراہ ہمایوں کی مدد کو ہندوستان کو چلے تھے اور واپسی پر آپ راستے میں فوت ہو گئے تھے ۔ آپ کو کچھی میں دفنایا گیا تھا ۔ ' ہمایوں کی بہن گلبدن بیگم نے آپ کو بخشو بلوچ لکھا ہے اور آپ کے احسان کو اپنے بھائی کے لیے اعزاز تصور کیا ہے،

رخشانیوں کو ایک براہوئی طائفہ بتایا جاتا ہے ، لیکن انھیں بلوچ کہنا زیادہ صحیح ہو گا ۔ ان کی زبان بلوچی ہے اور ڈیمز نے بلوچ نسل کے بیان میں انھیں بلوچوں کا ایک طائفہ بتایا ہے ۔ ان کا مورث اعلیٰ حمل بنح حسن بن شاہک بتایا ہے جو رند کی نویں پیڑھی میں تھا ۔ روایت کے مطابق قبیلے کا بانی رخش نامی بلوچ تھا ، جو کوئی تیس قرن پہلے زندہ تھا اور اس کے دو بیٹے ہارون اور جمال الدین باپ کی موت کے بعد جھگڑ پڑے اور جمال الدین نے حلب کے قریب گھر کو ترک کیا اور ساتھیوں کے ہمراہ گواش ( خاران ) کی طرف ہجرت کی ۔ اس کا بیٹا ہوت اس جانشین ہوا اور طائفہ جمالدینی مشہور ہوا ۔ قریب اس وقت نوشکی کا بلوچ قبیلہ ماندوئی ، جو دس قرن پہلے عرب سے آیا تھا ۔ مغل حکمرانوں کے استحصال سے تنگ آکر جمال دینیوں سے مدد کا ملتجی ہوا ۔ التجا منظور ہوئی اور اور قبیلہ نوشکی منتقل ہو گیا اور علاقہ کی زمینیں دونوں طائفوں میں برابر تقسیم ہوگئیں ۔ اس طرح ماندائی جمال دینی رخشانیوں میں مدغم ہو گئے ۔ دریں اثنا رخشانیوں کی دوسری شاخ ہارون بن بالدین کے زیر قیادت تھی اور بادینی کے نام سے موسوم تھی ۔ اپنے ہمسایہ قبائل کے ساتھ پیکار و کارزار میں شکست کھا کر جلدور ( خاران ) کی طرف ہجرت پر مجبور ہو گئے ۔ جمالدینیوں اور ماندئی نے مغل ظلم و ستم سے تنگ آکر بادینیوں کو مدد کے لیے بلایا ۔ جنھوں نے ایک چال کے ذریعہ افغانوں کو ٹھکانے لگادیا ۔ انھوں نے والی اور اس کے جلواداروں کو ایک ضیافت میں بلایا ۔ اور مغل مہمانوں کو مختلف بادینی خاندانوں میں ٹہرایا گیا ۔ پہلے سے طہ شدہ اشارے پر جو نقارے کی چوٹ تھی بمعنی ’ نوش خانی ‘ ( کھانا شروع کرو ) بادینیوں نے مہانوں پر حملہ کیا اور انھیں ماڑ ڈالا ۔ مقامی روایت کے مطابق نوشکی کے موجودہ نام کی وجہ تسمیہ یہی الفاظ ’ نوش خانی ‘ ہیں ۔ بادین کو کابل بلایا گیا ، لیکن اس نے اپنے اقدام کی تسلی بخش وضاحت کی اور ایک مقررہ رقم سالانہ خراج کی ادائیگی پر واپس آنے کی اجازت دے دی گئی ۔ واپسی پر بادینیوں کو قبائلی زمینوں میں حصہ دے دیا گیا اور اس کے بعد ضلع کا مستقل قبیلہ بن گیا ۔ رخشانی کی کبھار ترنگ اور ہلمند میں ملتے ہیں ۔ پوٹنگر کا کہنا ہے کہ رخشانی کاہل الوجود جاہل ، بے سلیقہ اور لٹیرے ، لوٹ مار تو پوری نسل کا خاصہ ہے اور قمہار بازی بھی مہمان نوازی اور قول کی پابندی جو ان کی ذاتی بہادر سے متعلق ہو ان کی شیخیاں بالکل صحیح ہیں ۔ اب یہ قبیلے لٹیرے نہیں ہیں ، لیکن دیگر امور میں ان میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی ہے اور چند منشیات کے سوا وہ غریب اور کاشت کار ہیں ۔ گو رخشانی نام یا مقامی تلفظ کے تحت رشخانی خاران میں اتنا مقبول نام ہے کہ یہ کسی خاص قبیلہ اؤتک محدود نہیں ۔

اس کا اصلی مطلب ہے صرف وادی رخشان کا باشندہ ہے ۔ لیکن بتدریح اسے مختلف گروہوں کے لیے استعمال کر لیا گیا ہے ۔ بلاشبہ یہ معنوعی توسیع رخشانیوں اور رند بلوچوں کے مبینہ تعلق کا نتیجہ ہے ۔ کیوں کہ بلوچی منظومات کے مطابق رندوں کے چوبیس بولکوں8 یا خاندانوں میں سے ایک تھا ، جو کولواہ میں ٹہر گئے ۔ اس منحوس سرزمین پر صرف باجرہ ہوتا ہے ، رخشانی پیچھے رہے گیا ۔ وہاں اس نے کھلے میدان میں اپنا گھر بنایا ۔ بعض روایات کے مطابق ریکی اور دامنی رخشانیوں کے طائفہ میں تھے ۔ لیکن دامنی یچھے رہ گئے اور ریکی ریگہائے ماشکیل میں ٹہر گئے اور رخشانیوں کا سواد اعظم وادی رخشانی میں آگیا ۔ جہاں سے وہ شمال کی طرف خاران اور نوشکی میں پھیل گئے،