ردر پریاگ کا آدم خور تیندوا

ردر پریاگ کا آدم خور تیندوا ردرا پریاگ کے آدم خور تیندوے نے کل 125 افراد کو ہلاک کیا تھا اور اسے مشہور شکاری جم کاربٹ نے ہلاک کیا تھا۔

جم کوربیٹ آدم خور تیندوے کو قتل کرنے کے بعد (1926)

اس تیندوے نے پہلا انسانی شکار بنجی نامی گاؤں میں کیا اور آٹھ سال تک ہندوں کے مقدس مندروں کیدار ناتھ اور بدری ناتھ کے درمیان کسی نے رات کو اکیلے سفر کرنے کی جرات نہیں کی کیونکہ یہ راستہ تیندوے کی حدود سے گذرتا تھا اور چند لوگ ہی اپنے گھروں سے باہر نکلتے تھے۔ تیندوے اتنا نڈر تھا کہ بند دروازے توڑ کر، کھڑکیوں سے اندر گھس کر، مٹی یا گھاس پھونس سے بنے جھونپڑوں میں سوراخ کر کے بھی شکار کر لیتا تھا۔ 1925ء میں برطانوی پارلیمان نے جم کاربٹ سے مدد مانگی۔ ردرپریاگ کے قصبے میں اس جگہ نشان بنا ہوا ہے جہاں یہ تیندوا ہلاک ہوا تھا۔ یہاں تیندوے کی ہلاکت کی خوشی میں ہر سال ایک میلہ لگتا ہے اور یہاں کے لوگ جم کاربٹ کو سادھو مانتے ہیں۔

جم کاربٹ نے اپنی کتاب میں اس تیندوے کے بارے لکھا ہے کہ یہ تیندوا نر اور بوڑھا تھا۔ اس کے دانت مسوڑھوں تک گھس چکے تھے۔ جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ آدم خور درندے عموماً کسی بیماری یا معذوری کی وجہ سے جب اپنا فطری شکار نہیں کر سکتے تو وہ انسان کو بطور خوراک اپناتے ہیں۔ انسان کا شکار ان کے لیے انتہائی آسان ثابت ہوتا ہے۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ردرپریاگ کا آدم خور، جم کاربٹ، ترجمہ : جاوید شاہیں، ناشر : فکشن ہاؤس