رس (شہر)
الرس۔ عرف عرب میں دفن پر مستعمل ہے
رس المیت اذا دفن وغیب فی الحقرہ۔ میت کو جب قبر میں داخل کرکے اوپر سے مٹی ڈال دی جائے تو رس المیت بولتے ہیں۔ پھر اس کنویں کو رس کہنے لگے جس کی منڈیر اور دہانہ نہ ہو چونکہ قوم شعیب (علیہ السلام) کنویں کے ارد گرد بستی تھی اس لیے اسے اصحاب الرس کہا گیا ہے۔ اور اس شہر کا نام رس کہلایا[1]
الرس کلام عرب میں اس کنوئیں کو کہتے ہیں جس کے گرد منڈیر نہ ہو، یعنی معاون کے کنوئیں۔ صحاح جوہری میں مرقوم ہے کہ الرس اس کنوئیں کا نام تھا جو قوم ثمود کے بقیہ لوگوں کا تھا۔ ایک قول یہ ہے کہ الرس بنو اسد کے پانی اور ان کے باغات کا نام ہے۔ امام قشیری نے ذکر کیا ہے کہ پہاڑوں پر جوتہ بہ تہ برف جم جاتی ہے اس کو الرس کہتے ہیں ابو عبیدہ نے ذکر کیا ہے کہ الرس وہ کنواں ہے جس کے گرد منڈیر نہ ہو۔ ایک قول یہ کہ یہ کنواں آذر بائیجان میں ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ کنواں یمامہ میں ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ انطاکیہ میں ہے۔ اس کا معنی ہے دھنسا دینا، لوگوں نے اپنے نبی کو اس میں دھنسا دیا تھا اس لیے اس کنوئیں کو الرس کہتے ہیں۔ [2]