اصحاب الرس
اصحاب الرس سے مراد قوم ثمود کے باقی ماندہ لوگ ہیں جو عذاب کے بعد باقی رہے، ضحاک وغیرہ مفسرین نے ان کا قصہ یہ لکھا ہے کہ جب حضرت صالح علیہ السلام کی قوم (ثمود) پر عذاب آیا تو ان میں سے چار ہزار آدمی جو حضرت صالح (علیہ السلام) پر ایمان لا چکے تھے وہ عذاب سے محفوظ رہے، یہ لوگ اپنے مقام سے منتقل ہو کر حضرموت میں جا کر مقیم ہو گئے، حضرت صالح (علیہ السلام) بھی ان کے ساتھ تھے، ایک کنویں پر جا کر یہ لوگ ٹھہر گئے اور حضرت صالح (علیہ السلام) کی وفات ہو گئی، اسی لیے اس جگہ کا نام حضرموت (یعنی موت حاضر ہو گئی) ہے، یہ لوگ یہیں رہ پڑے، پھر ان کی نسل میں بت پرستی شروع ہو گئی، ان کی اصلاح کے لیے حق تعالیٰ نے ایک نبی کو بھیجا، جس کو انھوں نے قتل کر ڈالا، ان پر خدا تعالیٰ کا عذاب آیا، ان کا کنواں جس پر ان کی زندگی کا انحصار تھا وہ بیکار ہو گیا اور عمارتیں ویران ہوگئیں، قرآن کریم نے اسی کا ذکر دو بار فرمایا ہے۔[1]
رس عربی زبان میں مختلف معنی کے لیے آتا ہے، مشہور معنی یہ ہیں کہ کچے کنویں کو رس کہا جاتا ہے، جو اینٹ پتھر وغیرہ سے پختہ نہ کیا گیا ہو۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ تفسیر معارف القرآن، مفتی محمد شفیع صاحب،ق،92