رواقیت
رواقیت (انگریزی: Stoicism) فلسفہ کا ایک مکتب خیال جو تیسری صدی قبل مسیح میں زینون (Zeno) نے قائم کیا تھا۔ اس کا یہ نام اس لیے پڑا کہ اس فلسفہ کے حامی پہلی مرتبہ ایتھنز میں اسٹواپویسل (Stoa Poccile) میں ملے تھے اور یہاں زینون نے اپنا فلسفہ بیان کیا تھا۔ زینون کے کریٹس (Crates) کے ساتھ مل کر سنک (Cynic) فیلسوف کلبی کا مطالعہ کیا تھا۔ اس نے سقراط کے بعض خیالات خاص طور پر پاکیزگی وغیرہ سے متعلق خیالات کو بھی اپنایا تھا۔ اس میں اس نے ہرقلیطس (Heraclitus) کے کائنات کے تصورات اور ارسطو کی بعض تعلیمات کو بھی سمونے کی کوشش کی۔
زینون کے خیالات کو ترقی دینے اور انھیں مابعد الطبیعیاتی فلسفہ کی شکل میں ڈھالنے میں ایک اور یونانی عالم کرائی سی پس (Chrysippus) کا بہت بڑا حصہ ہے۔ فلسفہ کے اس مکتب کے عالموں میں جزائر رہوڈس کے پینے ٹیس (Panaitus) کو بھی بڑا مقام حاصل ہے۔ اس نے دوسری صدی قبل مسیح میں اسے روم میں مقبول بنایا۔ اس کے لیے اس نے رواقیت کے فلسفہ میں نفسیات کے بارے میں افلاطون کے بعض خیالات کو بھی شامل کر لیا۔ روم کے عالموں نے یونان کے کسی اور فلسفہ کے مقابلہ میں رواقیت کی سب سے زیادہ قدر کی اور اس کا تیسرا دور تقریباْ رومن عالموں کی کاوشوں کا رہین منت ہے۔ اس کی جڑیں پہلے ہی سے قدیم فلسفہ میں پھیلی ہوئی تھیں۔ انسان اور کائنات کے باہمی رشتوں کو اس میں خاص مقام دیا گیا تھا اور ان سب کی مدد سے اب ایک مثالی نیک اور عقلمند آدمی کی تصویر مکمل کرلی گئی۔
رواقیت کے فلسفہ کو طبیعیات، منطق اور اخلاقیات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ زینو نے طبیعیات اور منطق کو بنیاد بنایا اور اس پر اخلاقیات کی عمارت تعمیر کی۔ اس کی منطق کی بنیاد ارسطو کی تعلیمات، خاص طور پر آرگنوں پر ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس کا خیال تھا کہ علم کی بنیاد آخر کار حسی ادراک (Sense Perseption) ہی پر ہوتی ہے۔
رواقیت کا طبیعی نظریہ مادیت کا ہے۔ حقیقی چیزیں سب مادی ہیں۔ قوت، جو شکل دیتی ہے وہ مادہ سے مل جاتی ہے۔ اس ساری کائنات کو متحرک کرنے والی طاقت یعنی خدا ہر چیز میں سمایا ہوا ہے۔ تمام ذی روح چیزوں کی پیدائش کا سبب اور ان کی روح وہی ہے۔
رواقی نیکی کو زندگی کی اعلیٰ ترین قدر تصور کرتے ہیں۔ ہمیشہ فطرت کے قریب رہنا ان کا کلیہ حیات تھا۔ ان کے نزدیک انسان کے عادات و اطوار کو فطرت کے قوانین سے مطابقت رکھنی چاہیے۔ صرف اپنے جذبات پر قابو پاکر، غیر منصفانہ خیالات کو اپنے آپ سے دور رکھ کر، دوسروں کے ساتھ مروت کا طرز اختیار کرکے اور اپنے فرائض کو صحیح مزاج کے ساتھ انجام دے کر ہی انسان حقیقی معنوں میں آزادی حاصل کرسکتا ہے اور اپنی زندگی پر ایک بادشاہ کی طرح حکومت کرسکتا ہے۔ اپک ٹیٹس (Epictitus) نے رواقی اخلاقیات پر کئی لاجواب تصانیف چھوڑی ہیں۔[1]