زنانہ بانجھ پن (انگریزی: Female infertility) سے مراد خواتین میں پائی جانے والی مختلف دشواریاں یا وہ مسائل جن کی وجہ سے وہ یا تو استقرار حمل سے قاصر ہو سکتی ہیں یا پھر یہ کہ وہ ہم بستری کے عمل سے ہی اجتناب کریں یا خود کو اس قابل نہ پائیں۔ اس کی مختلف وجوہ ممکن ہے۔ ان میں ماہواری کا غیر مؤقت اور کسی مخصوص دورانیے کے بغیر ہونا، ضرورت سے کہیں زیادہ خون کا اخراج، جس کی وجہ سے طبیعت میں عمومی غیر ملنساری اور یگانگت کی خواہش۔ ہم بستری سے عدم میلان سے یا اس سے اجتناب کا نفسیاتی مسئلہ۔ جسم میں مخصوص نسوانی مادے کی عدم دست یابی یا کم۔ ایاس یا ماہواری کے خاتمے کا کم عمری میں ہی ظاہر ہونا، عورت کے جسم میں تولیدی بیضوں یا انڈوں کا نہ بننا یا کم بننا، لاکھ کوششوں کے باوجود حمل کا نہ قرار پانا یا استقرار حمل کے باوجود پوری حمل کی میعاد تک اس کے بچے کی صورت تک بننے تک قائم نہ رہنا کچھ عام تولیدی دشواریاں ہیں۔ یہ اندازہ کیا گیا ہے کہ اس طرح کے مسائل سے 48 خواتین دنیا بھر میں متاثر ہیں۔[1] ان میں یہ مسائل سب سے زیادہ جنوبی ایشیا، ذیلی صحرائے افریقا، شمالی افریقا، مشرق وسطٰی، مرکزی / مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا میں سب سے زیادہ ہیں۔

مصنوعی طریقے سے بچے کو پیدا کرنے کے ایک طریقے کا مظاہرہ

خواتین پر بانجھ پن کا غلط الزام

ترمیم

جہاں ایسے معاملات سامنے آئے ہیں جہاں فی الواقع خواتین بانجھ پن کی شکار ہیں، مگر ترقی پزیر ممالک میں کئی بار عورتوں پر غلط اور بے بنیاد الزامات بھی لگائے جاتے ہیں۔ یہاں اولاد کا وجود مردوں کی مردانگی کی علامت، طاقت اور جنسی صلاحیت کا سر چشمہ سمجھی جاتی ہے۔ یہ تاثر، جو جنسی شناخت کے نتیجے سے ابھرتا ہے، مردوں کو کم تر پیش کرتا ہے اگر ان کے یہاں اولاد نہ ہو۔ اس کے نتیجے میں تولیدی عدم صلاحیت کا سارا الزام خواتین پر لاد دیا جاتا ہے۔ یہ سماجی داغ خواتین کے لیے غیر منصفانہ برتاؤ کا باعث بھی بنتا ہے اور ان کے ساتھ جسمانی تشدد اور زد و کوب کا باعث بنتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے وہ کئی بار غیر ضروری تکلیف دہ طبی دواؤں کے علاج سے گزرتی ہیں، وہ جھاڑ پھونک اور جادو ٹونا سے بھی گزرتی ہیں اور انتہا یہ بھی ہوتی ہے کہ صحیح البدن خواتین پر بانجھ پن کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ انھیں طلاق دیا جاتا ہے یا پھر انھیں اپنی زندگی اسی بانجھ پن کے الزام کی وجہ سے کسی سوتن کے وجود کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ [2] [3]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Mascarenhas M.N.، Flaxman S.R.، Boerma T.، Vanderpoel S.، Stevens G.A. (2012)۔ "National, Regional, and Global Trends in Infertility Prevalence Since 1990: A Systematic Analysis of 277 Health Surveys"۔ PLOS Med۔ 9 (12): e1001356۔ PMC 3525527 ۔ PMID 23271957۔ doi:10.1371/journal.pmed.1001356 
  2. "Why are women scapegoated in cases of infertility?"
  3. Infertility and Moral Luck: The Politics of Women Blaming Themselves for Infertility