جنوبی ایشیا

براعظم ایشیا کا علاقہ جس میں برصغیر پاک و ہند شامل ہے

جنوبی ایشیا براعظم ایشیا کے جنوبی علاقوں کو کہا جاتا ہے جو برصغیر پاک و ہند اور ان سے ملحقہ علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہ علاقہ (مغرب سے مشرق کی جانب) مغربی ایشیا، وسط ایشیا، مشرقی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے درمیان واقع ہے۔جس کے ایک طرف دنیا کا تیسرا بڑا سمندری حصہ بحر ہند ہے۔اور دوسری جانب قدرتی طور پر بلند ترین دنیا کی چھت تصور کیا جانے والا پہاڑی سلسلہ ہمالیہ جو نیپال سے لے کر بشمول پاکستان اور وسط ایشیا تک چلا جاتا ہے یہ ایک طویل ترین قدر خلیج بھی ہے۔جو برصغیر اور چائنہ کو الگ کرتی ہے جنوبی ایشیا جن ممالک پر مشتمل ہے : ان میں

  1.  بنگلہ دیش،
  2.  بھارت،
  3.  بھوٹان،
  4.  پاکستان،
  5.  افغانستان
  6.  سری لنکا،
  7.  مالدیپ اور
  8.  نیپال' شامل ہیں۔
جنوبی ایشیا
ممالک اور علاقہ جات[1]
آبادی1,891,454,121 (2018)[2]
آبادی درجہفہرست براعظم بلحاظ آبادی[3]
خام ملکی پیداوار$3.12 ٹرلین[4][5]
خام ملکی پیداوار$11.67 ٹریلین[4]
زبانیںبنیادی ہند یورپی زبانیں اور دراوڑی زبانیں اور جنوبی ایشیائی زبانیں اور چینی۔تبتی زبانیں اور دیگر
منطقہ وقتمتناسق عالمی وقت+04:30، متناسق عالمی وقت+05:00، متناسق عالمی وقت+05:30، متناسق عالمی وقت+05:45، متناسق عالمی وقت+06:00
دار الحکومت شہر
بڑے شہر
جنوبی ایشیا کا نقشہ، اس میں سات ممالک ہیں ــ
جنوبی ایشیا کا شہری نقشہ

علاوہ ازیں ثقافتی وجوہات کی بنا پر کبھی کبھار تبت (عوامی جمہوریۂ چین) کو بھی جنوبی ایشیا میں شمار کیا جاتا ہے [6][7]

تعریف اور استعمالات

ترمیم
 
ہندی پرت اور اس سے ملحقہ پرتیں

برصغیر کی اصطلاح اس علاقے کے لیے استعمال ہوتی ہے جو ہندی پرت پر قائم ہے جس کے شمال میں یوریشین پرت ہے۔ جبکہ سیاسی اصطلاح کے طور پر یہ نام برصغیر کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس میں ہندی پرت کے باہر کے علاقے بھی شامل کیے جاتے ہیں خصوصاً افغانستان جس کے اپنے پڑوسی پاکستان کے ساتھ سیاسی، سماجی و نسلی (پشتون) طور پر قدیم تعلقات ہیں۔ جبکہ پاکستان میں دریائے سندھ کے مغرب میں واقع علاقے تاریخی وجوہات کی بنا پر کبھی کبھار وسط ایشیا میں شمار کیے جاتے ہیں۔ جس کی ایک مثال بلوچستان ہے جو ہندی پرت پر قائم نہیں بلکہ سطع مرتفع ایران کے کناروں پر واقع ہے۔

اعداد و شمار و تاریخ

ترمیم

چونکہ جنوبی ایشیا تاریخ میں ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کی زد میں رہا ہے اس لیے یہاں کی ثقافت بھی مختلف قوموں کے ملاپ سے بنی ہے۔ تاہم اکثریت ہندو مت اور اسلام پر ایمان رکھتی ہے اس لیے جنوب ایشیائی ثقافت پر دونوں مذاہب کی گہری چھاپ ہے۔

جنوبی ایشیا دنیا کے گنجان آباد ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ تقریباًً 1.6 ارب افراد یہاں رہتے ہیں جو دنیا کی کل آبادی کا پانچواں حصہ ہے۔ علاقے میں آبادی کی کثافت 305 افراد فی مربع کلومیٹر ہے جو دنیا بھر کی اوسط کثافت سے 7 گنا زیادہ ہے۔

اپنی زرخیزی کے باعث یہ علاقہ ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کی زد میں رہا ہے لیکن اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ دیگر اقوام کی یہ حکومتیں ہی اس سرزمین کے ماضی کو عظیم بناتی ہیں۔ ماضی کی کئی حکومتوں خصوصاً وسط ایشیا کے مغلوں نے اس خطے کی ثقافت، مذہب اور روایتوں پر بہت اثر ڈالا ہے۔ اور ان کے عظیم دور کی جھلک آج بھی برصغیر کے چپے چپے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ان کے دور حکومت میں یہ علاقہ دنیا بھر میں "سونے کی چڑیا" کے طور پر مشہور ہو گیا۔

زمانہ ہائے قدیم میں دریائے سندھ کی تہذیب دنیا کی ترقی یافتہ ترین تہذیبوں میں سے ایک تھی جو آج سے تقریباًً 5 ہزار سال قبل قائم تھی۔

بعد ازاں یورپی نو آبادیاتی دور میں یہ خطہ برطانیہ کے قبضے میں آگیا جبکہ چند چھوٹے علاقوں پر پرتگال، ہالینڈ اور فرانس کا قبضہ بھی رہا۔ بہرحال 1940ء کی دہائی کے اواخر میں خطہ آزاد ہو گیا۔

جغرافیہ

ترمیم

سر زمین جنوبی ایشیا جہاں کئی متضاد ثقافتوں اور تہذیبوں کا گہوارہ ہے وہیں جغرافیائی طور پر بھی گوناگوں خصوصیات کی حامل سر زمین ہے۔ شمال میں حالیہ کی بلند ترین چوٹیوں سے جنوب میں عظیم میدانوں، غیر آباد وسیع صحراؤں اور منطقہ حارہ کے گھنے جنگلات اور ناریل کے درختوں سے سجے ساحلوں تک ہر علاقہ اس سرزمین کی رنگا رنگی میں اضافہ کرتا جاتا ہے۔

جغرافیائی و سیاسی طور پر بنگلہ دیش، بھارت، بھوٹان، پاکستان، سری لنکا اور نیپال کو جنوبی ایشیا کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ جو آپس میں علاقائی تعاون کی ایک تنظیم "سارک" کے بندھن میں بندھے ہیں۔ حال ہی میں افغانستان کو بھی اس تنظیم کا رکن بنایا گیا ہے۔

جنوبی ایشیا کے شمال میں ایک عظیم سلسلہ کوہ ہمالیہ ہے جو برف سے ڈھکی ایک عظیم دیوار کی طرح ایستادہ ہے اور اسے براعظم ایشیا کے دیگر علاقوں سے جدا کرتا ہے۔ ہمالیہ نقشے میں ایک کمان کی طرح نظر آتا ہے۔ دریائے سندھ، گنگا اور برہم پترا کے عظیم زرخیز میدان اور ڈیلٹائی علاقے ان پہاڑی علاقوں کو جزیرہ نما سے الگ کرتے ہیں۔ وسط میں دکن کی عظیم سطح مرتفع ہے جس کے دونوں جانب ساحلوں کے ساتھ ساتھ مشرقی گھاٹ اور مغربی گھاٹ نامی دو پہاڑی سلسلے ہیں۔

دوسری جانب بنگلہ دیش کا بیشتر حصہ دریائے برہم پترا اور گنگا کے عظیم ڈیلٹائی علاقے پر واقع ہے۔ گرمائی مون سون میں موسمی بارشوں اور ہمالیہ سے پگھلنے والے پانی کے باعث ان دریاؤں میں سیلاب آ جاتے ہیں جس کے باعث بنگلہ دیش کئی مرتبہ زبردست سیلابوں کا نشانہ بنا جن میں لاکھوں افراد موت کا نشانہ بنے۔

خصوصیاتِ آبادی

ترمیم

کیونکہ جنوبی ایشیا کی آبادی کی اکثریت کا ذریعہ معاش زراعت ہے اس لیے دریاؤں کے زر خیز میدان، پہاڑی وادیاں اور ساحلی علاقے انتہائی گنجان آباد ہیں لیکن اب دیہات سے شہروں کو ہجرت کے رحجان میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کی بڑی وجہ شہروں میں روزگار کی فراہمی ہے۔ اس کے باعث شہروں میں مسائل پیدا ہو رہے ہیں، خصوصاً رہائش کی مطلوبہ سہولیات نہ ہونے کے باعث آبادی کی بڑی تعداد کچی آبادیوں میں رہنے پر مجبور ہے جہاں ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات تک موجود نہیں ہوتیں۔ ممبئی، کولکتا اور کراچی خطے کے سب سے بڑے شہر ہیں۔

معیشت

ترمیم

جنوبی ایشیا کی 60 فیصد آبادی کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے لیکن اس کے باوجود خطے میں صرف اتنی فصل ہی کاشت ہو پاتی ہے جو ملک کی غذائی ضروریات کو پورا کر سکے بلکہ کئی مرتبہ تو ان ممالک کو بیرون ممالک سے غذائی اجناس درآمد بھی کرنا پڑتی ہیں۔ اس کی اہم وجہ زراعت کے قدیم روایتی طریقوں کا استعمال اور جدید طریقوں تک عدم رسائی ہے۔ بنیادی طور پر اجناس کاشت کی جاتی ہیں جن میں مشرق اور مغرب کے ان علاقوں میں چاول کاشت کیا جاتا ہے جہاں پانی وافر مقدار میں موجود ہے جبکہ سطح مرتفع دکن پر باجرہ، شمالی علاقوں میں گندم کاشت کی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں چائے اور پٹ سن اہم نقد فصلیں ہیں۔

حالیہ چند سالوں میں بھارت انتہائی تیزی سے صنعتی ترقی کر رہا ہے جس میں خصوصاً کاریں، ہوائی جہاز، کیمیا، غذائی اور مشروبات قابل ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان میں پارچہ بافی، کان کنی، بنکاری اور قالین سازی کی صنعتیں معروف ہیں جبکہ بھارت، مالدیپ، سری لنکا اور پاکستان میں سیاحت بھی تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ چھوٹے پیمانے پر گھریلو صنعتیں بھی مقامی آبادی کی ضروریات پوری کرتی ہیں لیکن ان صنعتوں میں تیار ہونے والی چند اشیا خصوصاً ریشمی و سوتی کپڑے، ملبوسات، چمڑے کی اشیاء اور زیورات بیرون ملک برآمد بھی کیے جاتے ہیں۔

ممالک

ترمیم
ملک رقبہ
(کلومیٹر²)
آبادی(2009) کثافت آبادی
(/کلومیٹر²)
جی ڈی پی
(2009)
فی کس آمدنی
(2009)
دارالخلافہ کرنسی حکومت سرکاری زبانیں نشان ریاست
  بنگلادیش 147,570 162,221,000[8] 1,099 $100,002 ملین $551 ڈھاکہ ٹکا پارلیمانی جمہوریت بنگالی زبان  
  بھوٹان 38,394 697,000[8] 18 $1,269 ملین $1,832 تھمپو انڈین روپیہآیزو 4217 آئینی ملوکیت زونخا  
  بھارت 3,287,240 1,210,193,422[9] 382[9] $1,537,966 ملین[10] $1,271 نئی دہلی بھارتی روپیہ وفاقی جمہوریہ، پارلیمانی جمہوریت ہندی، انگریزی، اُردو (7 ریاستوں میں)  
  مالدیپ 298 396,334[8] 1,330 $1,357 ملین $4,388 مالے روفیہ جمہوریہ دیوہوی  
  نیپال 147,181 29,331,000[8] 200 $22,615 ملین $1227 کھٹمنڈو نیپالی روپیہ عوامی جمہوریہ نیپالی زبان  
  پاکستان 796,095 170,608,000[8] 225 $174,866 ملین $1023 اسلام آباد پاکستانی روپیہ اسلامی جمہوریہ اردو، انگریزی[11]  
  سری لنکا 65,610 20,238,000[8] 309 $53,241 ملین $5,300 سری جے وردھنے پورا کوٹے سری لنکن روپیہ عوامی اشتراکیت جمہوریہ سنہالہ زبان، تمل زبان  

زبانیں

ترمیم
 

جنوبی ایشیا ہند-یورپی زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے اردو،ہندی،بنگلہ،پشتو اور فارسی قومی و دفتری زبانیں ہیں۔

خطے میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں جن کے کئی لہجے ہیں۔

متعلقہ مضامین

ترمیم
  1. جنوبی ایشیا
  2. جنوب مشرقی ایشیا
  3. شمالی ایشیا
  4. مشرقی ایشیا
  5. مغربی ایشیا
  6. وسط ایشیا

حوالہ جات

ترمیم
  1. "The World Factbook: South Asia"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 مارچ 2015 
  2. Population of Southern Asia (2018) - Worldometers
  3. "South Asia Regional Overview"۔ South Asian Regional Development Gateway۔ 21 نومبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  4. ^ ا ب "Report for Selected Countries and Subjects"۔ www.imf.org۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2020 
  5. "Report for Selected Countries and Subjects"۔ www.imf.org۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2020 
  6. [1] آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ias.berkeley.edu (Error: unknown archive URL) یونیورسٹی آف کیلی فورنیا
  7. [2] یونیورسٹی آف شکاگو
  8. ^ ا ب پ ت ٹ ث "USCensusBureau:Countries ranked by population, 2009"۔ 13 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2012 
  9. ^ ا ب "Census of India : Provisional Population Totals : India :Census 2011"۔ Censusindia.gov.in۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مارچ 2012 
  10. "Report for Selected Countries and Subjects"۔ Imf.org۔ 2006-09-14۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مارچ 2012 
  11. "Population by Mother Tongue" (PDF)۔ Population Census Organization, Government of Pakistan۔ 17 فروری 2006 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مئی 2008