ڈاکٹر زوار زیدی پاکستانکے عالمی شہرت یافتہ تاریخ داں تھے.[M 1] آپ نے پنجاب یونیورسٹی سمیت بعض دوسری عالمی شہرت کی حامل درس گاہوں میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے اور 20 سے زیادہ قیمتی کتابیں بھی تصنیف کیں۔ لیکن پاکستان اور اہل پاکستان کے لیے ان کی سب سے یادگار خدمت قائد اعظم پیپرز کے حوالے سے ان کا وہ تحقیقی کام ہے جس کے پائے کی کوئی دوسری کوشش منظرعام پر نہیں آسکی۔[1]

حالات زندگی ترمیم

1928 میں بدایوں میں پیدا ہوئے۔ [M 1]

تعلیم ترمیم

زوار زیدی انیس سو اڑتالیس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹیََ[2] سے تاریخ میں ایم اے ایل ایل بی کیا۔ بعد ازاں لاہور منتقل ہو گئے۔ ایف سی کالج میں تاریخ کے استاد رہے۔ کچھ عرصہ ایچی سن کالج میں بھی پڑھایا۔ ان کے شاگردوں میں ڈاکٹر اقبال احمد اور مستقبل کے ایک صدرِ پاکستان فاروق لغاری بھی شامل تھے۔

ملازمت ترمیم

برطانیہ سے ڈاکٹریٹ کیا اور وہیں برسوں پڑھاتے رہے۔ یونیسکو کی انترنیشنل کونسل آف آرکائیوز کے لیے دس سال کام کیا۔ 1991 میں پاکستان واپس آئے تو ایک بڑی ذمے داری ان کی منتظر تھی۔[M 1]

انیس سو اکسٹھ میں زوار زیدی لندن چلے گئے اور تقسیمِ بنگال پر مقالہ لکھ کر اسکول آف اوریئنٹل اینڈ افریکن سٹڈیز سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں وہیں استاد مقرر ہوئے اور انیس سو نوے تک تدریس سے منسلک رہے۔ اس دوران دس برس تک وہ یونیسکو کی انٹرنیشنل کونسل فار آرکائیوز میں بھی متحرک رہے۔

کارہائے نمایاں ترمیم

مسلم لیگ پیپرز ترمیم

انکا پہلا تدوینی کارنامہ مسلم لیگ پیپرز کو زمانے کی دست برد سے بچانا تھا۔قائد اعظم اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر شریف المجاہد کے بقول دہلی میں مسلم لیگ کے آفس سیکرٹری شمس الحسن مسلم لیگ کے بارے میں منوں دستاویزات پاکستان لائے۔ مگر یہ دستاویزات بوریوں میں بند دار الحکومت کراچی کی سرکاری بارکوں میں گلتی سڑتی رہیں۔ جب انیس سو ساٹھ کے اوائیل میں ایوب خان نے دار الحکومت کراچی سے راولپنڈی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر آئی ایچ قریشی کے اصرار پر ایوب خان نے یہ دستاویزات کراچی یونیورسٹی کے حوالے کرنے کی اجازت دے دی۔ انیس سو چھیاسٹھ میں ان دستاویزات کی بحالی کا کام ڈاکٹر زوار زیدی کے سپرد ہوا۔ اب ان مسلم لیگ پیپرز کی فوٹو کاپیوں پر مبنی سوا چھ سو جلدیں کراچی میں قائد اعظم اکیڈمی کے پاس ہیں۔ اور اوریجنل پیپرز نیشنل آرکائیوز اسلام آباد کے تہ خانوں میں بند ہیں۔ بقول پروفیسر شریف المجاہد ابھی مسلم لیگ پیپرز کی چھ سو مزید جلدیں بنائی جا سکتی ہیں لیکن سرکاری ترجیحات میں شاید یہ کام کبھی بھی شامل نہ ہو سکے.

جناح پیپرز ترمیم

جب زوار زیدی انیس سو اکیانوے میں لندن سے پاکستان منتقل ہوئے تو اسلام آباد میں نیشنل آرکائیوز میں انھیں قائد اعظم سے متعلق دستاویزات اور خطوط کو محفوظ کرنے کا کام سونپا گیا۔ ان میں سے بیشتر مواد وہ تھا جو محترمہ فاطمہ جناح کی تحویل میں تھا اور ان کی وفات کے بعد حکومت نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔ ڈاکٹر زوار زیدی نے انتہائی مستقل مزاجی اور عرق ریزی کے ساتھ ان دستاویزات کو جناح پیپرز کے نام سے ترتیب دینا اور محفوظ کرنا شروع کیا۔ اس کام میں ان کی اہلیہ بھی خوب مدد کرتی رہیں۔ اور اٹھارہ برس کی محنت کے سبب جناح پیپرز کی سولہ جلدیں مرتب ہو گئیں۔ زوار زیدی نے اس پروجیکٹ کے لیے تنخواہ لینے سے انکار کیا اور صرف ایک گاڑی اور رہنے کی جگہ کی فرمائش کی۔ انیس سو نوے کے وسط میں انھیں قائد اعظم اکیڈمی کا اعزازی چیرمین بنا دیا گیا۔

بی بی سی کے مطابق دہلی میں مسلم لیگ کے آفس سیکریٹری شمس الحسن پارٹی سے متعلق ہزاروں دستاویزات پاکستان لائے لیکن وہ ایک عرصے تک سرکاری دفاتر میں گلتی سڑتیں رہیں۔ دار الحکومت کراچی سے منتقل ہوا تو یہ ذخیرہ کراچی یونیورسٹی کو سونپ دیا گیا۔ بعد میں نیشنل آرکائیوز اسلام آباد منتقل کیا گیا۔ قائد اعظم اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر شریف المجاہد یہ دستاویزات اتنی ہیں کہ ان سے چھ سو جلدیں بنائی جا سکتی ہیں۔

ڈاکٹر زوار زیدی کو نیشنل آرکائیوز میں موجود قائد اعظم کی دستاویزات اور خطوط مرتب کرنے کا کام سونپا گیا۔ انھوں نے آخری سانس تک نہایت محنت سے یہ خدمت انجام دی اور "جناح پیپرز" کی 16 جلدیں شائع کیں۔ اس کام کو دنیا بھر میں سراہا گیا اور قائد اعظم کی بیٹی دینا واڈیا نے بھی ایک خط لکھ کر ان سے اظہار تشکر کیا۔

آخری ایام ترمیم

حکومت نے ڈاکٹر صاحب کو اس کام کے لیے بھاری مشاہرہ دینے کی پیشکش کی تھی لیکن وہ انھوں نے منظور نہیں کی۔ صرف اتنا کہا کہ اسلام آباد میں رہنے کے لیے جگہ اور گاڑی دے دیں۔ اٹھارہ سال کی ان خدمات کا صلہ یہ ملا کہ ایک دن سرکاری اہلکار آئے، انھیں مطلع کیا کہ یہ گھر کسی اور افسر کو الاٹ ہو گیا ہے اور ان کا سامان گھر سے نکال کر سڑک پر رکھ دیا۔

بی بی سی کے مطابق گریڈ 22 کی وہ الاٹمنٹ گریڈ 17 کی ایک خاتون افسر نے اپنے بااثر صحافی شوہر کی مدد سے کرائی تھی۔ اسے میڈیا پر شوروغل مچنے کے بعد منسوخ کیا گیا۔

وہ صحافی محترم روف کلاسرا تھے۔ انھوں نے الزامات لگنے کے بعد ایک کالم میں وضاحت کی کہ ایسا ان کے کہنے پر نہیں ہوا تھا بلکہ جب یہ بات ان کے علم میں آئی تو انھوں نے الاٹمنٹ منسوخ کروائی۔

حقیقت جو بھی ہو، لیکن ڈاکٹر صاحب یہ بے عزتی برداشت نہیں کرپائے۔ وہ لاہور منتقل ہو گئے اور صرف تین ماہ بعد انتقال کرگئے۔

ان کے بعد جناح پیپرز کی مزید 2 جلدیں شائع ہوئیں۔[M 1]

انتقال ترمیم

81برس کی عنبر میں 31 مارچ 2009 کو لاہور میں ان کا انتقال ہوا۔[1][3]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ ت مبشر علی زیدی کا کتب خانہ - فیس بک گروپ . -18- Oct-2022
  1. ^ ا ب "سید زوار حسین زیدی کا سانحہ ارتحال!"۔ روزنامہ جنگ۔ جنگ گروپ۔ 03 اپریل ، 2009۔ اخذ شدہ بتاریخ 6-جون 2023 
  2. حرفِ شوق، مختار مسعود، صفحہ 209، چہارم اشاعت
  3. "زوار کو مستقل مکان مل گیا !"۔ بی بی سی آرکائیو۔ بی بی سی اردو۔ اخذ شدہ بتاریخ 6-جون2023