زینب عبدالہادی الخواجہ

زینب عبد الہادی الخواجہ ( عربی: زينب عبد الهادي الخواجة ; پیدائش 21 اکتوبر 1983ء [1][2] ) ایک بحرینی انسانی حقوق کی کارکن ہیں، جو بحرینی شورش مین شریک تھیں۔ [3] وہ اینگری عربیہ [4] کے نام سے ہونے والے مظاہروں کے ساتھ ساتھ بھوک ہڑتال کے دوران میں اپنے والد عبد الہادی الخواجہ کی حراست کے خلاف احتجاج کرنے کے بارے میں آن لائن ٹویٹس پوسٹ کرنے کے بعد مشہور ہوئیں۔ [5]

زینب عبدالہادی الخواجہ
 

معلومات شخصیت
پیدائش 1 جنوری 1983ء (41 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بحرین   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد عبدالہادی الخواجہ   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
مادر علمی بیلوئٹ کالج   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ کارکن انسانی حقوق   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

پس منظر ترمیم

الخواجہ اپنی انگریزی میں لکھی ٹویٹر فیڈ کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر بحرین کی احتجاجی تحریک کو فروغ دیتی ہیں۔ [6] فروری 2022 ءتک، ان کے 42,100 فالورتھے۔ [7]

ان کی شادی وافی الماجد سے ہوئی ہے اور ان کی ایک بیٹی ہے جس کا نام جودی ہے اور ایک بیٹا ہے جس کا نام عبد الہادی ہے۔ ان کے والد عبد الہادی الخواجہ، بحرین سینٹر فار ہیومن رائٹس کے سابق صدر اور بین الاقوامی فاؤنڈیشن فار دی پروٹیکشن آف ہیومن رائٹس ڈیفنڈرز فرنٹ لائن کے مشرق وسطیٰ-شمالی افریقا کے علاقے کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔ [8] ان کی بہن کے شوہر محمد المسکاتی بحرین یوتھ سوسائٹی فار ہیومن رائٹس کے صدر ہیں۔ [9]

بحرینی شورش 2011-12ء احتجاج ترمیم

اپریل 2011ء میں، الخواجہ نے اپنے والد، اپنے شوہر اور اپنے بہنوئی حسین احمد کی گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کے لیے دس روزہ بھوک ہڑتال کی۔ [8][10][11] انھوں نے بتایا کہ اگرچہ ان کی ایک سال کی بیٹی تھی، لیکن انھوں نے موجودہ حکومت کے تحت زندگی گزارنے پر موت کو ترجیح دی: ’’اگر میرے والد کو قتل کیا جائے گا تو میں بھی مرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔ ہمیں ہمارے والد نے ہمیشہ سکھایا ہے کہ عزت کے ساتھ مرنا غلاموں کی طرح جینے سے بہتر ہے۔" [8] انھوں نے امریکی صدر براک اوباما کی انتظامیہ پر "آمر کے پیچھے کھڑے ہونے" پر بھی تنقید کی۔ [8]

دو دیگر خواتین کے ساتھ، انھیں 15 جون کو اقوام متحدہ کے دفتر میں دھرنا دینے کی کوشش کے بعد سات گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا۔ حراستی مرکز میں اپنا فون رکھنے کے بعد، انھوں نے اپنے ٹوئٹر فیڈ پر اپ ڈیٹس پوسٹ کرنا جاری رکھا، جیسا کہ، "میرے خیال میں اقوام متحدہ کو شاید غلط فہمی ہوئی ہو گی، ہم سیاسی قیدیوں کی رہائی چاہتے تھے، ان میں شامل نہ ہوں۔ ؛)" [6] بعد میں گرفتاری پر تبصرہ کرتے ہوئے، الخواجہ نے کہا، "ہمارا مقصد کبھی بھی گھر کو محفوظ بنانا نہیں تھا، بل کہ بحرین میں تمام سیاسی قیدیوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔" [6]

حوالہ جات ترمیم

  1. Nikoline Vestergaard۔ "OVERBLIK: Al-Khawajas kamp for demokrati"۔ DR۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 اپریل 2016 
  2. Elizabeth Flock (2011-12-15)۔ "Bahraini activist 'Angry Arabiya' arrested – BlogPost"۔ The Washington Post۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جنوری 2012 
  3. Robert Mackey (2011-12-01)۔ "An Activist Stands Her Ground in Bahrain – NYTimes.com"۔ Thelede.blogs.nytimes.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جنوری 2012 
  4. "Bahrain releases all female prisoners bar AngryArabiya"۔ 23 اگست 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مارچ 2022 
  5. "Leading Bahrain pro-democracy activist released"۔ بی بی سی نیوز۔ 21 فروری 2012۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مارچ 2012 
  6. ^ ا ب پ Robert Mackey (2011-06-15)۔ "Even in Custody, Bahrain Activists Use Twitter to Protest – NYTimes.com"۔ Thelede.blogs.nytimes.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جنوری 2012 
  7. "Bahrain- Arrest of Human Rights Defender Zainab Al-Khawaja"۔ Gulf Center for Human Rights۔ 14 فروری 2012۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مارچ 2012 
  8. ^ ا ب پ ت "Bahraini activist's daughter on hunger strike for his release – CNN"۔ Articles.cnn.com۔ 2011-04-16۔ 22 اپریل 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جنوری 2012  ۔
  9. Katherine Zoepf (1 جون 2011)۔ "Bahrain Ends Martial Law but Renews Crackdown on Protests"۔ The New York Times۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اپریل 2012 
  10. Noora Faraj (23 اپریل 2011)۔ "The accidental heroine?"۔ Al Arabiya۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مارچ 2012 
  11. "BBC News – Bahrain activist Abdulhadi al-Khawaja 'on trial'"۔ Bbc.co.uk۔ 2011-04-21۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جنوری 2012 

بیرونی روابط ترمیم