سورہ یٰس میں کلام کا مدعا کفار قریش کو نبوت محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان نہ لانے اور ظلم و استہزاء سے اس کا مقابلہ کرنے کے انجام سے ڈرانا ہے۔ اس میں اِنذار کا پہلو غالب اور نمایاں ہے مگر بار بار اِنذار کے ساتھ استدلال سے تفہیم بھی کی گئی ہے۔ استدلال تین امور پر کیا گیا ہے: توحید پر آثارِ کائنات اور عقلِ عام سے، آخرت پر آثارِ کائنات، عقلِ عام اور خود انسان کے اپنے وجود سے، اور رسالت محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صداقت پر اس بات سے کہ آپ تبلیغِ رسالت میں یہ ساری مشقت محض بے غرضانہ برداشت کر رہے تھے، اور اس امر سے کہ جن باتوں کی طرف آپ لوگوں کو دعوت دے رہے تھے وہ سراسر معقول تھیں اور انہیں قبول کرنے میں لوگوں کا اپنا بھلا تھا۔ اس استدلال کی قوت پر زجر و توبیخ اور ملامت و تنبیہ کے مضامین نہایت زور دار طریقے سے بار بار ارشاد ہوئے ہیں تاکہ دلوں کے قفل ٹوٹیں اور جن کے اندر قبولِ حق کی تھوڑی سی صلاحیت بھی ہو وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ امام احمد، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ اور طبرانی وغیرہ نے معقل بن یسار سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: "یٰس قلب القراٰن، یعنی یہ سورت قرآن کا دل ہے"۔ یہ اُسی طرح کی تشبیہ ہے جس طرح سورۂ فاتحہ کو ام القرآن فرمایا گیا ہے۔ فاتحہ کو ام القرآن قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں قرآن مجید کی پوری تعلیم کا خلاصہ آ گیا ہے۔ اور یٰس کو قرآن کا دھڑکتا ہوا دل اس لیے فرمایا گیا ہے کہ وہ قرآن کی دعوت کو نہایت پر زور طریقے سے پیش کرتی ہے جس سے جمود ٹوٹتا اور روح میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔ مکمل مضمون