ستا اور بلونت ڈوم
گرو ارجن دیو کے دربار کے دو رُباب نواز تھے۔ ستا کھنڈور صاحب کا رہنے والا تھا جبکہ بلونت کا تعلق مالوہ سے تھا۔ ان دونوں کو گرو انگد دیو نے شبد کیرتن کرنے کے لیے اپنی خدمت میں رکھا تھا۔ یہ پانچویں پاٹھ شاہی تک خدمات انجام دیتے رہے۔ بالآخر بہت بوڑھے ہو گئے، سیوا بھی پرانی ہو گئی۔ اک بار ان کی بچی کی شادی تھی تو انھوں نے گُرو جی سے درخواست کی کہ دیپ مالا کی آمدن انھیں عنایت کر دی جائے۔ گُرو جی نے دیپ مالا کی آمدن دے دی جو اس بار پہلے کی نسبت بہت کم تھی ، ان دونوں نے بہت اودھم مچایا اور غرور سے رقم واپس کردی اور کہنے لگے کہ گُرو جی کو ہم نے ہی تو گُرو بنایا ہے ہم نہ چوکی کریں گے تو گرومت ہی چھن جائے گی۔ گُرو جی نے منانے کے کیے اپنے سکھوں کو بھیجا بجائے ماننے اور صلح کرنے کے الٹا کہنے لگے کہ گُرو نانک جی کو بھی ہم نے ہی گُرو بنایا تھا۔ اس پر گُرو جی نے انھیں بددعا دی اور حکم دیا کہ سکھ ان کا مقاطعہ کریں کوئی بھی ان کو منہ نہ لگائے اور جس کسی نے بھی اس حکم کی خلاف ورزی کی یا ان کی سفارش کرنے کی کوشش کی اسے سزا کے طور پر منہ کالا کر کے گدھے پر بٹھا کر ایک ڈھول والا ساتھ کر کے لڑکوں کو پیچھے چھوڑا جائے گا۔ گُرو جی جے اس حکم کے بعد کوئی سکھ ان کو منہ نہیں لگاتا تھا اور یہ دونوں شدید مشکلات کا شکار ہو گئے۔ بالآخر لاہور گئے اور وہاں ایک سکھ لدھا بھائی کو اپنا ماجرا سنایا اور مدد کے طلبگار ہوئے۔ ستا اور بلونت نے لدھا بھائی سے گُرو جی سے سفارش کرنے کی درخواست بھی کی۔ لدھا کو ان پر ترس آگیا اس نے ان کی مدد کے لیے گُرو جی کے حکم کو پورا کرنے جی خاطر اپنا منہ سر کالا کر کے گدھے پر سوار ہو کر لاہور اور امرتسر کی گلیوں کے چکر لگائے۔ اور پھر گُرو جی کے دربار میں جاکر حاضری دی۔ گُرو جی خوش ہوئے اور کہا ، “ واہ بھائی لدھا ! خوش رہو یہ کیا بھیس بدلا ہے ؟” لدھے نے عرض کی مہاراج بلونت اور ستا کی خطا معاف کریں۔[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ہنس چوگ: باوا بدھ جی ؛ پنہ نمبر: 240 _ 241। ؛ لاہور بک شاپ گھنٹہ گھر لدھیانہ۔