ستوریانی قوم کی تاریخ
ستوریانی قوم کی تاریخ ! اظہرشاہ ستوریانی ستوریانی قوم جو استرانہ کے نام سے پہچان رکھتی ہے، ایک سید پٹھان قبیلہ ہے، جو اس وقت ڈیرہ اسماعیل خان، لورلائی، کوئٹہ اور افغانستان کے کچھ علاقوں میں آباد ہیں، ستوریانی قبیلہ کا شجرہ نسب تاریخی کتاب "تواریخ خورشید جہاں" جو فارسی زبان میں ہے، اس سے شجرہ نسب اخذ کی ہے، اس کتاب کے مصنف جناب شیر محمد خان صاحب نے مختلف قبائل کے اشجار انساب ذکر کیے ہیں، صفحہ نمبر 280 پر ستوریانی قبیلہ کا شجرہ نسب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ستوریانی قبیلہ کا شجرہ نسب جد امجد سید محمد گیسودراز بابا سے ہوکر حضرت حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچتی ہے، سیدمحمد گیسودراز بابا عربی نسل اور عراق کے شہر بغداد کے رہنے والے تھے، آپ رحمہ اللہ بلند پایہ عالم اور صوفی بزرگ تھے، باباگیسودراز رحمہ اللہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارہویں پشت سے ہیں، شجرہ نسب کچھ اس طرح ہے سید محمد گیسودراز بن غفار بن سید عمر بن سید جعفر المعروف یاسیدق بن سید قائم بن سید رجال محمد باقر بن علی زین العابدین بن سید الشہداء حضرت امام حسین بن حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا۔ بابا گیسودراز رحمہ اللہ نے بغداد شہر سے کوہ سلیمان کی طرف سفر ایک اونٹنی پر شروع کیا اور جب کوہ سلیمان کے وادی برمل پہنچے تو یہاں اس غرض سے قیام کیا کہ یہ جگہ عبادت اور ریاضت کے لیے موضوع رہیگی، یہی پر قیام فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہے۔ ان دنوں میں اس وادی کے آس پاس پٹھان قبیلے آباد تھے کچھ عرصہ کے بعد ان پشتون قبیلوں میں ایک خطرناک وبا پھیل گئی جو ہزار کوششوں کے باوجود ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی، اس دوران ان قبائل کے سرداروں کو حضرت بابا رحمہ اللہ کا علم ہوا، تو تین سردار شیرانی، کرلانی اور کاکڑ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسئلہ عرض کیا کہ ایسے وبا نے پورے علاقے کو گھیر رکھا ہے آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وبا سے خلاصی نصیب فرمائے، بابا رحمہ اللہ نے دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ مرض اور وبا ختم ہو گئی، سب لوگ وبا کے ختم ہونے پر بہت خوش ہوئے، تو ان تینوں سرداروں نے بابا گیسودراز رحمہ اللہ کو تحفہ دینے کی خواہش کا اظہار کیا، بابا رحمہ اللہ نہ مانے مگر بہت زیادہ اسرار پر ماننے پر مجبور ہو گئے اور تینوں سرداروں نے اپنی ایک ایک بیٹی نکاح میں دے دی۔ بابا گیسودراز رحمہ اللہ نے تینوں سے نکاح کیا اور تینوں بیویوں سے اولاد بھی ہوئی، شیرانی بیوی سے بیٹا پیدا ہوا اس کا نام ستوریانی رکھا، کاکڑ بیوی سے بیٹا پیدا ہوا اس کا نام مشوانی رکھا، کرلانی بیوی سے دو بیٹے پیدا ہوئے جو جوڑا تھے ایک کا نام وردک اور دوسرے کا نام ہنی رکھا، کچھ زمانے کے بعد بابا گیسودراز رحمہ اللہ کو ہندوستان جانا ہوا تو تینوں بیویوں کو بیٹوں سمیت اپنے اپنے میکے چھوڑ کر ہندوستان چلے گئے، کچھ عرصہ بعد دوبارہ کوہ سلیمان آئے اور اپنے سب سے چھوٹے بیٹے ہنی جو لاڈلہ بیٹا تھا ساتھ ہندوستان لے گئے جس کی آولاد آج بھی ہندوستان میں موجود ہے، باقی تینوں بیٹے وہی کوہ سلیمان میں اپنے ماموں کے گھر رہنے لگے اور یہی بڑے ہوئے شادیاں بھی یہی آپنے ماموں کے گھر پشتون عورتوں سے کی۔ مشوانی اور وردک آفغانستان اور بلوچستان کے طرف چلے گئے، جن ایک الگ بحث اور ایک الگ تاریخ ہے کہ وہ کب اور کس طرح افغانستان اور بلوچستان گئے، یہاں صرف ستوریانی قبیلہ کی تاریخ کا تذکرہ ہے اس لیے ان قبیلوں کا یہاں ذکر کرنا خروج عنہ المبحث ہے۔ ستوریانی کی اولاد بڑھتے بڑھتے اب ایک خاندان کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ جس کے بارے میں افغانی پشتون مؤرخ ڈاکٹر لطیف یاد صاحب اپنی کتاب )پختانہ قبیلی وپیژنئی( جو پشتو زبان میں ہے، میں تفصیلی تذکرہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے کتاب میں 141 پشتون قبیلوں کا ذکر کیا ہے، جس میں ستوریانی قبیلہ کا ذکر 89 نمبر پر ہیں۔ صفحہ نمبر 194 پر لکھتے ہیں کہ ستوریانی قبیلہ جو استرانہ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ شروع میں خانہ بدوش )کوچیان، پوندہ( تھے سردیوں میں بلوچ اور بابڑ قبیلوں کے علاقے )ڈیرہ اسماعیل خان ( کی طرف ہجرت کرتے اور گرمیوں میں دوبارہ موسیٰ خیل کاکڑ قبیلہ کے زمینوں کے طرف واپس آ جاتے۔ عرصہ دراز تک یہی سلسلہ چلتا رہا گرمیوں اور سردیوں میں علاقے تبدیل کرتے رہے، اس کے ساتھ آہستہ آہستہ بڑھتے ہوئے ستوریانی خاندان اب خاندان سے بڑھ کر قبیلہ میں بدل چکا تھا۔ اسی دوران ستوریانی قبیلہ کا موسیٰ خیل کاکڑ قبیلہ کے ساتھ کسی قومی مسئلہ پر لڑائی ہوئی جو بڑھتے بڑھتے خونریز جنگ کی صورت اختیار کر گئی، اس لڑائی میں موسیٰ خیل کاکڑ قبیلے کے بہت سے لوگ مارے گئے، جرگہ بلایا گیا جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ ستوریانی قبیلہ کے لوگ کاکڑ قبیلہ کے زمینوں کے طرف واپس کھبی نہیں آینگے۔