سدوم وعمورہ
سدوم وعمورہ ،قوم لوط کے اُن مقامات جہاں عذاب ہوا تھاکو کہا جاتا ہے۔
قوم لوط کے مسکن شہر سدوم اور عمورہ بحر مردار کے ساحل پر واقع تھے اور قریش مکہ اپنے شام کے سفر میں برابر اسی راستہ سے آتے جاتے تھے ان آبادیوں کی ہلاکت کا زمانہ جدید تحقیق کے مطابق 2061 ق م ہے۔ (ماجدی)[1]
اور لوط (علیہ السلام) کو بھی حق تعالیٰ نے نبوت عطا فرما کر اردن اور بیت المقدس کے درمیان مقام سدوم کے لوگوں کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا۔ یہ علاقہ پانچ اچھے بڑے شہروں پر مشتمل تھا۔ جن کے نام سدوم، عمورہ، ادمہ، صبوبیم اور بالع یا صوغر تھے ان کے مجموعہ کو قرآن کریم نے موتفکہ اور موتفکات کے الفاظ میں کئی جگہ بیان فرمایا ہے۔ سدوم ان شہروں کا دار الحکومت اور مرکز سمجھا جاتا تھا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے یہیں قیام فرمایا۔ زمین سرسبز و شاداب تھی ہر طرح کے غلے اور پھلوں کی کثرت تھی۔ (یہ تاریخی تفصیلات بحر محیط، مظہری، ابن کثیر، المنار وغیرہ میں مذکور ہیں)۔[2]
بیت المقدس اور نہر اردن کے درمیان آج بھی یہ قطعہ زمین بحر لوط یا بحر میت کے نام سے موسوم ہے۔ اس کی زمین سطح سمندر سے بہت زیادہ گہرائی میں ہے اور اس کے ایک خاص حصہ پر ایک دریا کی صورت میں ایک عجیب قسم کا پانی موجود ہے جس میں کوئی جاندار مچھلی، مینڈک وغیرہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسی لیے اس کو بحر میت بولتے ہیں۔ یہی مقام سدوم کا بتلایا جاتا ہے[3]
الٹائی ہوئی بستیوں سے مراد سیدنا لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیاں ہیں۔ سیدنا جبریل نے بحکم الٰہی ان بستیوں کو اپنے پر کے اوپر اٹھایا اور بلندیوں پر لے جا کر انھیں اٹھا کر زمین پر دے مارا تھا۔ پھر بھی اس قوم پر اللہ کا غضب کم نہ ہوا تو ان پر پتھروں کی بارش برسائی گئی۔ سیدنا لوط کا مرکز تبلیغ سدوم کا شہر تھا۔ اور یہ الٹائی ہوئی بستیاں غالباً آج کل بحیرہ مردار میں دفن ہو چکی ہیں۔[4]
سیدنا لوط (علیہ السلام) کی تبلیغ کاعلاقہ بحر میت یا بحر لوط کے اردگرد سدوم کا شہر اور اردگرد عمورہ کی بستیاں تھا آپ کی قوم شرک اور دوسری بد اخلاقیوں کے علاوہ لواطت میں گرفتار بلکہ اس بدفعلی کی موجد بھی تھی۔ لوط کے سمجھانے پر بھی یہ لوگ اپنی کرتوتوں سے باز نہ آئے بلکہ الٹا سیدنا لوط (علیہ السلام) اور معدودے چند مسلمانوں کو اپنے شہر سے نکل جانے کی دھمکیاں دینے لگے۔ آخر فرشتے اس قوم پر قہر الٰہی ڈھانے کے لیے نازل ہوئے سیدنا جبریل نے ان کی بستیوں کو اکھاڑ کر اپنے پروں پر اٹھایا اور بلندی پر لے جا کر اور اٹھا کر نیچے پٹخ دیا۔ پھر اوپر سے پتھروں کی بارش برسائی گئی۔ چنانچہ یہ خطہ زمین سطح سمندر سے چار سو کلومیٹر نیچے چلا گیا اور اوپر پانی آ گیا۔ اسی پانی کے ذخیرہ کو بحر مردار، بحر میت یا غرقاب لوطی کہا جاتا ہے۔[5]
بائبل کے تناظر میں
ترمیمسدوم اور عمورہ کا بائبلی بیان پیدایش کی کتاب کے 18-19ابواب میں درج ہے۔ پیدایش 18باب خداوند اور دو فرشتوں کے ابرہام کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے آ نے کے بارے میں بیان کرتا ہے ۔ خُداوند نے ابرہام کو آگاہ کیا کہ "سدُوم اور عمورہ کا شور بڑھ گیا اور اُن کا جُرم نہایت سنگین ہو گیا ہے" ( پیدایش 18باب 20آیت) ۔ 22-33 آیات ابر ہام کی طرف سے خداوند سے سدوم اور عمورہ پر رحم کی التجا کو بیان کرتی ہیں کیونکہ ابرہام کا بھتیجا لوط اور اُس کا گھرانہ سدوم میں رہتا تھا۔
پیدایش 19باب دو فرشتوں کے انسانی شکل میں سدوم اور عمورہ میں داخل ہونے کو بیان کرتا ہے ۔ لوط فرشتوں سے شہر کے چوک میں ملا اور انھیں مجبور کیا کہ وہ رات اُس کے گھر میں گزاریں۔ فرشتے مان گئے۔ پھر بائبل بیان کرتی ہے کہ " اِس سے پیشتر کہ وہ آرام کرنے لیے لیٹیں سدُوم شہر کے مَردوں نے جوان سے لے کر بُڈھے تک سب لوگوں نے ہر طرف سے اُس گھر کو گھیر لِیا۔ اور انھوں نے لُوط کو پُکار کر اُس سے کہا کہ وہ مَرد جو آج رات تیرے ہاں آئے کہاں ہیں؟ اُن کو ہمارے پاس باہر لے آ تاکہ ہم اُن سے صحبت کریں"(پیدایش 19باب 4-5آیات)۔ اس کے بعد فرشتوں نے گھر کے اردگرد موجود مَردوں کو اندھا کر دیا اور لوط اور اس کے گھرانے کو شہروں سے فرار ہونے کی تاکید کی تاکہ وہ خدا کے غضب سے بچ سکیں۔ لوط اور اُس کا گھرانہ شہر سے بھاگ گیا اور پھر "خُداوند نے اپنی طرف سے سدُوم اور عمورؔہ پر گندھک اور آگ آسمان سے برسائی"( پیدایش 19باب 24آیت )۔ [6]
آثار قدیمہ
ترمیمامریکی ماہرین ارضیات وآثار قدیمہ نے 10 سال کی تحقیق و جستجو کے بعد یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ اردن میں قوم لوط کے تباہ ہونے والے شہر کو دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ قوم لوط کے تباہ شہر"سدوم" کے کھنڈر "تل الحمام" کے مقام پر پائے گئے ہیں۔ امریکی تحقیقاتی مشن کے سربراہ پروفیسر Steven Collins کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیقات کا نتیجہ سامنے آیا تو وہ خود بھی حیران رہ گئے کیونکہ سدوم شہر میں زندگی دفعتاً ختم ہو گئی تھی[7]
محققین کا کہنا ہے کہ سدوم شہر دو حصوں میں منقسم دکھائی دیتا ہے۔ ایک بالائی اور دوسرا زیریں حصہ ہے۔ شہر کے گرد مِٹی کی اینٹوں کی 10 میٹر اونچی اور 5.2 میٹر چوٹی دیوار بھی دریافت ہوئی ہے۔ شہرکے دروازوں کی باقیات بھی ملی ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ جب یہ شہر تباہ ہوا تو اس وقت بھی لوگ روز مرہ کے معمولات میں مشغول تھے مگر زندگی اچانک ہی ختم ہو گئی تھی۔ رہائش کے لیے بنائی گئے مکانات کے لیے مٹی کی اینٹیں استعمال کی گئی ہیں
حوالہ جات
ترمیم- ↑ تفسیر جلالین، جلال الدین سیوطی،سورۃ ہود،69
- ↑ تفسیر معارف القرآن مفتی محمد شفیع الاعراف80
- ↑ تفسیر معارف القرآن مفتی محمد شفیع الاعراف84
- ↑ تفسیر تیسیر القرآن مولانا عبد الرحمن کیلانی التوبہ70
- ↑ تفسیر تیسیر القرآن، عبد الرحمن کیلانی،الانعام،86
- ↑ https://www.gotquestions.org/Urdu/Urdu-Sodom-and-Gomorrah.html
- ↑ https://urdu.alarabiya.net/editor-selection/2015/10/15/%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D9%84%D8%B9%D9%88%D9%86-%D9%82%D9%88%D9%85-%D9%84%D9%88%D8%B7-%DA%A9%DB%92-%D8%AA%D8%A8%D8%A7%DB%81-%D8%B4%D8%AF%DB%81-%D8%B4%DB%81%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%DA%A9%DA%BE%D9%86%DA%88%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%D8%AF%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D9%81%D8%AA