سرمد شہید دہلوی سرمدشہید،فریددہرتھے اوروحیدعصرتھے۔

آپ سرمدہی کے نام سے مشہورہیں،بعض کتابوں میں آپ کو "سعیدائے سرمد"کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

قومیت و مذہب

ترمیم

شیرخاں لودھی کاخیال ہے کہ "اصلش ازفرنگستان وارمنی بود"[1]وہ ایران کے کسی خاندان سے تھے، بعض کاخیال ہے کہ آپ عیسائی تھے اوربعض کہتے ہیں کہ آپ یہودی تھے۔آپ نے اسلام قبول کیا۔

آپ کاوطن "کاشان"تھا۔ایران میں ارمنیوں کی کافی تعداد تھی،جس میں سے کچھ عیسائی تھے اور کچھ یہودی تھے۔

تعلیم

ترمیم

آپ کے رقعات اورآپ کی رباعیات سے پتہ چلتاہے کہ آپ علم و فضل میں درجہ کمال رکھتے تھے۔ فارسی زبان پرقدرت حاصل تھی۔عربی زبان سے بھی واقف تھے۔

پیشہ

ترمیم

آپ تجارت کرتے تھے۔اس زمانے میں ایرانی مصنوعات کی ہندوستان میں بہت قدرتھی۔قیمت بھی اچھی ملتی تھی۔حضرت سرمدایرانی مصنوعات لے کرہندوستان روانہ ہوئے۔ان کا خیال تھا کہ ایرانی مصنوعات فروخت کر کے ہندوستان میں قیمتی جواہرات خریدیں گے اوران جواہرات کوایران میں فروخت کریں گے۔ اس زمانے میں ایران سے سیاح سندھ ہوکرہندوستان آتے تھے۔آپ بھی اسی راستے سے آئے۔ جب ٹھٹھہ پہنچے ایک ہندولڑکے پرعاشق ہوئے۔ایسے ازخود رفتہ ہوئے کہ نہ اپناہوش تھااورنہ تجارتی سامان کی کوئی پروا۔ تذکرہ نویسوں میں اختلاف ہے کہ یہ واقعہ کہاں ہوا۔علی قلی خاں داغستانی نے اس واقعہ کا سورت میں ہونالکھاہے۔[2]

آزادبلگرامی نے لکھاہے کہ یہ واقعہ عظیم آبادپٹنہ میں ہوا۔ شیرخاں لودھی لکھتے ہیں۔ "دراثنائے تجارت شہرتتہ افتاد،برہندوپسرعاشق است" ترجمہ(اثنائے تجارت میں شہرتتہ افتادمیں ہندولڑکے پرعاشق ہوئے)۔ عشق نے آپ کی زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی پیداکی۔تجارتی مال سے بے نیازہوگئے۔دنیاسے دل سردہوگیا۔راحت وآرام کاتخیل دل سے جاتارہا،اب آپ حیران و سرگرداں پھرتے تھے۔کچھ دنوں بعدکپڑے بھی بوجھ معلوم ہونے لگے،ان کو بھی اتارپھینکا،اب ننگے پھرتے تھے۔

دہلی میں آمد

ترمیم

اس حالت میں آپ دہلی تشریف لائے۔شہزادہ داراشکوہ صوفی منش اورفقیردوست تھا۔جب اس کو آپ کے دہلی آنے کاحال معلوم ہوا،اس نے بہت ہی جلدآپ سے میل جول بڑھایا۔جب آپ کو قریب سے دیکھا،آپ کی روحانی قوت سے بہت متاثرہوا۔آپ کی بہت عزت اوراحترام کرتاتھا۔ شہزادہ داراشکوہ آپ کامعتقدتھا،غرض شاہی دربارمیں آپ کاکافی اثرتھا۔

حکومت میں تبدیلی

ترمیم

اورنگ زیب نے داراشکوہ کوشکست دی اورشاہجہان کی بجائے خود عنان حکومت ہاتھ میں لے لی۔ داراشکوہ صحراصحرابستی بستی پھرنے لگا۔داراشکوہ کے ہمدردوں،ساتھیوں اورہم نشینوں کے لیے یہ زمانہ صبرآزماتھا۔ سرمد بھی ان میں سے ایک تھے۔کچھ لوگ تو داراشکوہ کے ساتھ چلے گئے اورجوباقی رہ گئے تھے وہ اپنے آپ کوخطرے میں پاتے تھے۔ سرمدنے باہرجاناپسندنہیں کیا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ دہلی انکامدفن ہوگا۔

آپ پرالزامات

ترمیم

آپ پرجوفردجرم لگائی گئی،وہ سیاسی آمیزش سے خالی نہ تھی۔

  • (1)پہلاالزام آپ پریہ تھاکہ آپ نے اپنی حسب ذیل رباعی میں معراج جسمانی سے انکارکیاہے
  • (2)دوسراالزام آپ پریہ تھاکہ آپ داراشکوہ کے ہمدرداوربہی خواہ تھے۔
  • (3)تیسراالزام آپ پریہ تھاکہ آپ ننگے رہتے تھے جورسم شرع کے خلاف ہے۔
  • (4)چوتھاالزام آپ پریہ تھاکہ آپ پوراکلمہ نہیں پڑھتے تھے،آپ لاالہٰ سے زیادہ نہیں کہتے تھے۔

شہادت

ترمیم

آپ کی شہادت 1070ھ میں ہوئی۔آپ کامزاردہلی جامع مسجدکے نیچے فیوض وبرکات کاسرچشمہ ہے۔

سیرت پاک

ترمیم

آپ ایک کامل مجذوب تھے،علم اورفضل میں ثانی نہیں رکھتے تھے،بہت لوگ آپ کے منقاد اور معتقد تھے۔ [3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. مراۃ الخیال،ازشیرخان لودھی
  2. ریاض الشعراءازعلی خان داغستانی
  3. تذکرہ اولیائے پاک و ہند، ڈاکٹر ظہور الحسن شارب ،صفحہ 310پروگریسو بکس لاہور