سرمد آرمینیا کا باشندہ، کاشان میں مقیم رہا۔ نسلاً یہودی تھا اور اسرائیلی زبانوں اور علوم کا ماہر تھا۔ مشہور حکماء ملا صدرا شیرازی اور ابو القاسم فندرسکی کا شاگرد تھا۔ ہندوستان آکر حیدرآباد میں مقیم رہا۔ عبد اللہ قطب شاہ نے اسے خوش آمدید کہا۔ وہ اپنے ٹھٹہ کے قیام 1042ھ / 1632ء کے دوران میں ایک ہندو لڑکے ابھی چند پر ایسا عاشق ہوا کہ وہ اسی کا ہو کر رہ گیا۔ اسے کئی زبانیں سکھائیں۔ اس ہندو لڑکے نے اس کی نگرانی میں توریت کے ابتدائی حصے کا فارسی میں ترجمہ بھی کیا۔[2]

سرمد
(فارسی میں: سرمد کاشانی ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سرمد کاشانی اور شہزادہ دارا شکوہ

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1590ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آرمینیائی کوہستان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1661ء (70–71 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پرانی دہلی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات سر قلم   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن ضلع وسط دہلی   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش دہلی
لاہور
حیدر آباد
ٹھٹہ   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ایران   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
عملی زندگی
نمایاں شاگرد دارا شکوہ   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  تاجر ،  مترجم ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی ،  عبرانی ،  ہندوستانی ،  عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

آزاد مشربی

ترمیم

دبستان مذاہب کا مولف سرمد سے 1042ھ / 1632ء میں حیدر آباد میں ملا تھا اور اس سے کئی اقوال بھی نقل کیے ہیں۔ اس کے اشعار و اقوال سے عیاں ہوتا ہے کہ وہ وحدت ادیان کا قائل تھا۔ اس کا ایک شعر ہے
در کعبہ و بت خانہ سنگ اوشد وچوب اوشد ۔۔۔۔۔ یکجا حجرا لاسود و یکجا بت ہندو شد۔[3]
اگرچہ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا[3] لیکن اس کے عقائد و افکار میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا بلکہ اس کی حرکات سے معلوم پرتا ہے کہ وہ سوچی سمجھی سکیم کے تحت یہاں آیا تھا، اسے دارا شکوہ کا سہارا ملا تو یہیں کا ہو کر رہ گیا۔

سرمد اور دارا شکوہ

ترمیم

وہ 1064ھ / 1654ء میں دہلی پہنچا۔ معاصر تذکرہ نویس شیر خان لودھی نے مراۃ الخیال 1102ھ / 1690ء میں لکھا ہے کہ دارا شکوہ کی طبیعت اس قسم کے مجانین کی طرف راغب تھی۔[4] تمام مآخذ متفق ہیں کہ وہ اپنے قیام ٹھٹہ 1042ھ / 1632ء کے دوران مادر زاد برہنہ ہو گیا تھا۔ قیاس ہے کہ وہ آوارہ گردی کرتا ہوا دہلی نہیں پہنچا تھا بلکہ دارا شکوہ نے اسے خود دہلی بلایا تھا کیونکہ اس کی دارا شکوہ کے ساتھ خط کتابت بھی تھی۔[5] دارا شکوہ کا ایک خط بنام سرمد، سید مصطفے طباطبائی نے رسالہ انڈو ایرانیکا کلکتہ میں شائع کیا تھا۔[6] سرمد کو برہنہ حالت میں غیر ملکی سیاحوں نے بھی دیکھا تھا۔[7]

سرمد اور اورنگزیب عالمگیر

ترمیم

جب دارا شکوہ کو جنگ تخت نشینی میں شکست ہوئی اور اورنگزیب عالمگیر نے حکومت سنبھالی تو جہاں اس نے بہت سے غیر شرعی صوفیا کا احتساب کیا وہاں سرمد پر بھی گرفت ہوئی۔ اسے دربار میں طلب کیا گیا۔ اورنگزیب عالمگیر نے اعتماد خان ملا عبد القوی کو حکم دیا کہ وہ سرمد کو حاضر کرے، اس نے دربار میں سوال و جواب کے دوران میں بھی اسلام کے خلاف توہین ٓآمیز کلمات کہے اور اس کی انہی حرکات کی بدولت علما کے فتوی سے قتل کر دیا گیا۔[4][8][9][10]

حوالہ جات

ترمیم
  1. http://www.apnaorg.com/columns/majid/col2.html
  2. دبستان مذاہب ص95
  3. ^ ا ب دبستان مذاہب ص96
  4. ^ ا ب مراۃ الخیال، شیر خان لودھی، طبع کول 1848ء ص154
  5. حسنات الحرمین، اردو ترجمہ محمد اقبال مجددی ص85
  6. سکینۃ الاولیاء، سید محمد رضا جلالی نائینی، مقدمہ ص6
  7. Travels in the Mughal Empire, Bernier, p 317
  8. مآثر الامراء، ص225/1-224
  9. ریاض الشعراء، قلمی
  10. رقعات عالمگیری ص121-122