سریہ علی ابن ابی طالب (یمن)
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی بن ابی طالب کو بذات خود جھنڈا باندھا، اپنے ہاتھ سے انھیں عمامہ پہنایا اور فرمایا:
سریہ علی ابن ابی طالب (یمن) | ||
---|---|---|
عمومی معلومات | ||
| ||
متحارب گروہ | ||
مسلمان | اہل مذحج، یمنی | |
قائد | ||
علی ابن ابو طالب | نامعلوم | |
قوت | ||
300 | نامعلوم | |
نقصانات | ||
20 آدمی قتل ہوئے | ||
درستی - ترمیم |
” | ان کے علاقے میں قیام کرو، جب تک وہ خود لڑائی نہ شروع کریں، تم نہ کرنا۔ | “ |
علی المرتضی کو 10 رمضان المبارک کی یمن میں علاقہ مذحج (یہ ایک شخص کا نام تھا جو قبیلہ کا مورث اعلیٰ تھا) کی طرف بھیجا انھیں جھنڈا عطا کیا سر پر عمامہ باندھا علی المرتضی سے روایت ہے جب مجھ کو رسول اﷲ ﷺ نے یمن کی طرف قاضی بنا کر بھیجنا چاہا میں نے عرض کی، یارسول اﷲ! ﷺ آپ ﷺ مجھے بھیجتے ہیں اور میں نو عمر شخص ہوں اور مجھے فیصلہ کرنا آتا بھی نہیں یعنی میں نے کبھی اس کام کو نہیں کیاہے ارشاد فرمایا :اﷲ تعالیٰ تمھارے قلب کو رہنمائی کریگا اور تمھاری زبان کو حق پر ثابت رکھے گا۔ جب تمھارے پاس دو شخص معاملہ پیش کریں تو صرف پہلے کی بات سن کر فیصلہ نہ کرنا جب تک دوسرے کی بات سن نہ لو کہ اس صورت میں یہ ہو گا کہ فیصلہ کی نوعیت تمھارے لیے ظاہر ہو جائے گی فرماتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی مجھے فیصلہ کرنے میں شک و تر دد نہ ہوا۔ [1] علی المرتضی 300گھڑ سواروں کو لے کر گئے اپنے ساتھیوں کو پھیلا دیا ایک جماعت کو اسلام کی دعوت دی انھوں نے انکار کیا جس پر اس جماعت پر حملہ کیا ان کے 20 آدمی مارے گئے باقی بھاگ گئے یہ یمن کی پہلی فتح تھی جس سے کافی مال غنیمت ہاتھ آیا اس مال غنیمت پر بریدہ بن مصیب کو نگران مقرر فرمایاپھر دعوت اسلام دی جس کے نتیجے میں اس جماعت کے درداروں نے اسلام قبول کیا اس کے بعد علی المرتضی واپس آکر حج کے لیے مکہ پہنچ گئے[2][3]
نتائج
ترمیمماقبل: سریہ علی بن ابی طالب (بنو طے) ربیع الآخر 9 ہجری |
سرایا نبوی سریہ علی ابن ابی طالب (یمن) |
مابعد: غزوہ تبوک رجب 9 ہجری |