عمامہ (تلفظ:عِ-مَ-ا-مَ-ہ) یا پگڑی/دستار (عربی: عمامة، فارسی: دولبند/دستار/عمامه، انگریزی: Turban) سرپوش کی ایک قسم ہے، جس میں کپڑے کو سر پر پیچ دے کر لپیٹا جاتا ہے۔ اس کی کئی صورتیں ہوتی ہیں، عام طور پر عمامہ/سرپوش کا استعمال مرد کرتے ہیں۔ ممتاو علاقے جہاں عمامہ یا پگڑی باندھی جاتی ہے، برصغیر، افغانستان، جنوبی ایشیا، جزیرہ نما عرب، مشرق وسطی، مشرق قریب، وسط ایشیا، شمالی افریقہ، قرن افریقہ، ساحل اور سواحلی کوسٹ کے بعض علاقوں میں۔

راجستھانی پگڑی باندھی جا رہی ہے
انڈونیشی پَگ

اردو میں عمامہ کا لفظ عام طور پر مسلمانوں کے ایک خاص انداز میں باندھے گئے عمامہ/ پگڑی پر ہوتا ہے، جب کہ شملے والی پگڑی جو نواب ملک چوہدری اور دیہاتوں میں عام لوگ باندھتے ہیں اسے عمامہ کی جگہ پگڑی کہا جاتا ہے، البتہ یہ طے شدہ اصطلاح نہیں ہے۔ کیوں کہ بہت سے لوگ اسلامی طرز کے سرپوش کے لیے عمامہ اور پگڑی دونوں لفظ استعمال کرتے ہیں۔

سکھ پگڑی

پگڑی پہننا سکھوں کے درمیان میں عام ہے، جن کی خواتین بھی دستار کے نام سے اسے استعمال کرتی ہیں۔[1] سرپوش کی روایت مختلف مذاہب میں موجود ہے، خاص کر اسلام (بشمول اہل تشیع کے ) جو عمامہ کو سنت نبوی سمجھتے ہیں اور یہودیوں نے بائبل کے عہد میں پگڑی باندھی،[2] دور جدید میں برصغیر میں دعوت اسلامی نے سبز عمامہ کو فروغ دیا ہے۔[3]

تلفظ

ترمیم

عِمامہ (عِ-مَ-ا-مَ-ہ) عربی زبان کا لفظ ہے اس کا درست تلفظ عین کی زیر کے ساتھ عِمامہ ہے اسے عین کے زبر کے ساتھ عَمامہ پڑھنا غلط ہے جیسا کہ علامہ ابو الفیض محمد بن محمد بن عبد الرزّاق الحسینی اپنی لغت کی شُہرۂ آفاق کتاب’’ تَاجُ العُرُوس‘‘ میں لکھتے ہیں ’’عِمامہ عین کی زیر کے ساتھ ہے اور جو شَمائل کے بعض شارِحِین (شرح کرنے والوں ) نے اسے زبر کے ساتھ عَمامہ لکھاہے وہ غلط ہے۔‘‘ (تاج العروس) [4]

لغوی معنی

ترمیم

لُغت میں ہر اس شے کو عمامہ کہا جاتا ہے جسے سر پر لپیٹا جائے، جیسا کہ علامہ ابراہیم بیجوری (بَ-ی -جُو-رِی) لکھتے ہیں : وَالعِمَامَۃُ کُلُّ مَا یُلَفُّ عَلَی الرَّأسِ؛ یعنی ہر وہ چیز جسے سر پر لپیٹا جائے اسے عمامہ کہتے ہیں۔[5]

وجہ تسمیہ

ترمیم

علامہ محمد بن جعفر کَتانی کے مطابق، عمامے کو ’’عمامہ‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ پورے سر کو ڈھانپ لیتا ہے۔‘‘ [6]

مذہب میں

ترمیم

شیعہ

ترمیم
 
محمد حسن روحانی، سفید عمامہ میں

شروع سے عرب مسلمانوں میں عمامہ بطور ثقافت رائج تھا، جسے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اکثر استعمال سے اسلام میں سنت کا درجہ مل گيا،[2][7][8][9][10] آپ کا عمامہ اکثر سفید یا سیاہ ہوتا تھا۔[11] اہل تشیع عمامہ کو سنت نبوی سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں بہت سی احادیث بھی نقل کرتے ہیں۔ ان کے علما ایک خاص قسم کا لباس پہنتے ہیں جو عبا، قبا اورعمامہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ علما کرام جو عمامہ باندھتے ہیں وہ خاص طرز سے لپیٹا جاتا ہے۔ عام طور پر 6 سے 11 میٹر کپڑے کا ہوتا ہے۔ یہ عمامہ صرف دو رنگوں کا ہوتا ہے ایک مکمل سیاہ رنگ کا جو صرف سید لوگ باندھتے ہیں اور دوسرا مکمل سفید جو غیر سید امتی علما اپنے سر پر باندھتے ہیں۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Do Sikh women have to wear a Turban (Dastaar) as well as men? | Sikh Answers"۔ www.sikhanswers.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اپریل 2016 
  2. ^ ا ب Sh. G. F. Haddad۔ "The turban tradition in Islam"۔ Living Islam۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اگست 2013 
  3. المدینہ العلمیہ (2014ء)۔ "عمامہ کے فضائل"۔ املدینہ العلمیہ۔ مکتبۃ المدینہ۔ صفحہ: 518۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اپریل 2016 
  4. تاج العروس، باب المیم، فصل العین، 1/7830
  5. المواہب اللدنیۃ علی الشمائل المحمدیۃ، باب ما جاء فی صفۃ عمامۃ رسول اللہ، ص 99
  6. الدعامۃ فی احکام سنۃ العمامۃ، ص 4
  7. Inter Islam۔ "The turban, topee and kurta – in the light of Ahadith and the practice of our pious predecessors"۔ inter-islam.org۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 فروری 2014 
  8. "آرکائیو کاپی"۔ 09 جولا‎ئی 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اپریل 2016 
  9. "Islamic Dress and Head-dress for men"۔ sunnah.org۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 فروری 2014 
  10. "SeekersGuidance – Can Anyone Wear a Turban? Are There Styles Specific for Scholars? – Answers"۔ seekersguidance.org۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 فروری 2014 
  11. Alyssa J. Rubin (15 اکتوبر 2011)۔ "Afghan Symbol of Identity Is Subject to Search"۔ نیو یارک ٹائمز۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اکتوبر 2011