سری سقطی
سری سقطی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 772ء بغداد |
وفات | 8 ستمبر 867ء (94–95 سال) بغداد |
شہریت | دولت عباسیہ |
عملی زندگی | |
پیشہ | متصوف |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
شعبۂ عمل | تصوف |
درستی - ترمیم |
شیخ سری سقطی عثمانی صدیقی (پیدائش: 772ء— وفات: 8 ستمبر 867ء) سلسلہ قادریہ اور سلسلہ سہروردیہ کے اکابر مشائخ سے ہیں ۔ آپ کا شجرہ نسب حضرت سیدنا عثمان غنی تک پہنچتا ہے۔۔۔۔ سری سقطی بن۔ مغلس۔بن مسعود۔بن ابراھیم۔بن عبد الرحمان بن۔ابان۔بن عثمان غنی
اور آپ کا شجرہ نسب حضرت سیدنا صدیق اکبر سے بھی ملتا ہے
سری سقطی بن مغلس بن مسعود بن ابراھیم بن عبد الرحمان بن ام سعد بنت ام حسن بنت اسماء بنت ابی بکر صدیق
آپ کا شجرہ نسب حضرت سیدنا حارث بن ھشام سے بھی ملتا ہے
سری سقطی بن مغلس بن مسعود بن ابراھیم بن عبد الرحمان بن ام سعد بنت عبد الرحمان بن حارث بن ھشام بن مغیرہ
ولادت
ترمیمآپ کی پیدائش 155ھ میں بغداد شریف میں ہوئی۔ آپ کا نام سرُّالدین اور کنیت ابو الحسن ہے اور سری سقطی کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کے والدِ گرامی کا نام مغلس تھا ۔
حصول تصوف
ترمیمسری سقطی بغداد کے نامور صوفی بزرگ تھے۔[1] وہ معروف کرخی کے شاگرد تھے اور انہی سے خرقہ تصوف حاصل کیا وہ جنید بغدادی کے ماموں اوراستاد بھی تھے۔[2] وہ 867ء میں98 برس کی عمر میں بغداد میں انتقال کر گئے۔
اقوال اکابرین
ترمیمجنید ؒ فرماتے ہیں میرے نزدیک سری سقطی سے بڑا کوئی عابد نہیں 92سال وہ زندہ رہے لیکن مرض الموت کے علاوہ میں نے انھیں لیٹا ہوا نہیں دیکھا۔[3] جنید ؒ کا قول ہے کہ ایک مرتبہ میں ان کی عیادت کے لیے گیا تو میں نے طبیعت کے بارے میں پو چھا تو انھوں نے ایک شعر پڑھا کَیْفَ أشْکُوْ إلٰی طَبِیْبِیْ مَا بِیْ وَالَّذِیْ بِیْ أصَابَنِیْ مَنْ طَبِیْبِیْ “ـکہ میں اپنی بیماری کی اپنے معالج کو کیسے شکایت کروں اور جو مرض طبیب کی جانب سے پیدا ہوا ہو اس سے کیا شکایت کروں“ جنید ؒ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہوا کے لیے میں ان پر پنکھا چلانا شروع کیا تو انھوں نے فر مایا جو شخص اندر سے جل کر ختم ہو گیا ہو اس کو یہ پنکھا کیا فائدہ دے گا پھر انھوں یہ اشعار پڑھے ۔ “ دل جل رہا ہے اور آنسو جاری ہیں اور مصائب جمع ہیں اور صبر کا پیالہ لبریز ہو چکا ہے۔ ان کاموں کے نتیجے میں جو اس نے خواہش نفس اور شوق سے کیے ہوں، کیا سکون ملے گا جس کا اپنا گھر نہ ہو۔ اے خدا اگر میرے مقدر میں کچھ سکون ہے تو موت تک مجھے وہ عطا کر دے۔“[4] جنید ؒ فر ماتے ہیں میں نے ان سے نصیحت کی درخواست کی تو فر مایا کہ غلط لوگوں کی صحبت مت اختیار کرو اور اچھے لوگوں کی صحبت میں رہنے کے وقت بھی اللہ کو مت بھولو۔ سری سقطی فرماتے ہیں کہ میں نے معروف کرخی کو یہ ارشاد فرماتے سنا: جس نے اللہ کے مقابلے میں بڑائی چاہنے کا ارادہ کیاتووہ اُسے بری طرح پچھاڑ دے گا،جس نے اس سے لڑائی کا ارادہ کیا تو وہ اسے ذلیل کر دے گا، جس نے اس کو دھوکا دیناچاہا تووہ اسے اس کی سزا دے گا اور جس نے اس پر بھروسا کیا تووہ اسے نفع دے گا اور جس نے اس کے لیے عاجزی کی تو وہ اُسے بلند رتبہ عطا فرمائے گا۔ [5] معروف کرخی کی بارگاہ میں عرض کی گئی: دل سے دنیا کی محبت نکالنے کا نسخہ کیا ہے؟ارشاد فرمایا:اللہ عَزَّوَجَلَّ سے سچی محبت اور لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤکرنا۔ اور خالص محبت کی علامات تین ہیں:
- ۔۔۔۔۔۔ وعدہ پورا کرنا
- ۔۔۔۔۔۔ بغیرسوال کے عطا کرنا اور
- ۔۔۔۔۔۔ کوئی سخاوت نہ کرے پھر بھی اس کی تعریف کرنا
مُحَبِّین کی علامات بھی تین ہیں
- ۔۔۔۔۔۔ رضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی جستجومیں رہنا
- ۔۔۔۔۔۔ اسی کی ذات میں مشغول رہنا اور
- ۔۔۔۔۔۔ ہمیشہ اسی کی پناہ طلب کرنا۔[6]
ابو عبید ہ بن حر یوبہ کا قول ہے کہ سری سقطیؒ کے انتقال کے بعد میں نے انھیں خواب میں دیکھا میں نے ان سے پو چھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے کیا معاملہ کیا انھوں نے فر مایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری اور میرے جنازہ میں حاضرین کی بخشش فر مادی۔ میں نے عرض کیا کہ میں بھی آپ کے جنازہ میں شریک ہوا تھا یہ سن کر انھوں نے ایک رجسٹر نکالا لیکن اس میں میرا نام نہیں تھا میں نے کہا میں واقعتا آپ کے جنازہ میں تھا تو اس کے حاشیہ میں میرا نام نکل آیا [7]
ابن خلکان کہتے ہیں کہ سری سقطیؒ اکثر یہ اشعار پڑھا کرتے تھے۔ “جب میں نے محبت کا دعویٰ کیا تو محبوب نے کہا کہ جھوٹ ہے کیونکہ آپ کے اعضاء پر گوشت موجود ہے۔ جب تک جسم پر گوشت ہے اس وقت تک محبت کا دعویٰ غلط ہے اور اسی طرح جب تک اتنا مدہوش نہ ہو جائے کہ کسی بھی پکارنے والے کا جواب نہ دے اس وقت تک محبت کا دعویٰ کرنا صحیح نہیں“ ۔
وفات
ترمیمابن خلکان کاقول ہے کہ سری سقطی کی وفات13 رمضان المبارک 251ھ بروز منگل 98 برس کی میں ہوئی۔ خطیب نے ذکر کیا کہ سری سقطی کی وفات 6؍ رمضان 253ھ، بروز پیر اذان فجر کے بعد ہوئی اور بعد عصر شونیزی قبرستان بغدادمیں تد فین ہوئی ۔