سعدیہ شیخ کا قتل
22 اکتوبر2007ء کو سعدیہ شیخ کا غیرت کے نام پر قتل ہوا جب 20 سالہ بیلجیئم میں مقیم پاکستانی لڑکی کو اس کے بھائی نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ یہ ایک سنگین اقدام تھا۔ یہ قتل چارلروئی کے لوڈلنسارٹ میں ہوا [1] سعدیہ شیخ اپنے کزن سے شادی کرنے کے لیے ان کے والدین کے دباؤ ڈالنے کے بعد اپنا گھر چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔ان کے والدین کی طرف سے یہ دباؤ تھا کہ وہ اپنے ایک ایسے کزن سے شادی کر لیں جن سے ان کی کبھی ملاقات بھی نہیں ہوئی۔ ان کے بھائی نے 2011ء میں ہونے والے مقدمے میں اس قتل کا اعتراف کیا اور یہ دعوی کیا تھا کہ اس نے تنہا یہ اقدام اٹھایا لیکن ایک جیوری نے اس خاندان کے چاروں افراد کو قتل کا مجرم قرار دیا اور تے نام افراد کو سزا سنائی۔ اس کیس کو بیلجیم کا پہلا غیرت کے نام پر قتل کا مقدمہ کہا گیا ہے۔
Sadia Sheikh | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | برسلز |
وفات | 22 اکتوبر 2007 شارلیروا, بلجئیم |
درستی - ترمیم |
پس منظر
ترمیمسعدیہ کے والد طارق محمود شیخ پاکستان میں پیدا ہوئے ان کی والدہ [2] پروین زاہدہ سے ان کی شادی خاندان کی پسند کی تھی [3] ۔یہ خاندان 1973ء کو بیلجیم پہنچا۔ بچے برسلز میں پیدا ہوئے۔یہ خاندان چارلیروی میں رہائش پزیر تھا۔[4] سعدیہ شیخ ایتھنی رائل ووبن میں زیر تعلیم تھیں [5]۔جب بیلجیم اور پاکستان دونوں ملکوں میں کاروبار کرنے والے سعدیہ شیخ کے والدین نے انھیں زبردستی اس بات پر مجبور کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے کزن سے شادی کر لیں جس سے ان کی کبھی ملاقات بھی نہیں ہوئی۔ سعدیہ کو اپنے والدین سے بہت خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں وہ۔جبری شادی نہ کر دیں یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ایک سینٹر میں وصیت بھی لکھی اور خاموشی سے گھر چھوڑ دیا۔[2] [6] اور اپنے ایک ہم عمرجین کے پاس چلی گئی [7] انھوں نے مصالحت کی امید کے ساتھ 22 اکتوبر کو لا اسکول کے آخری سال میں [8] اس تنازع کو بہتر بنانے کے لیے اپنے اہل خانہ سے ملاقات کی لیکن انھیں تین بار گولی مار دی گئی [7] فائرنگ کے دوران ان کی بہن ساریہ شیخ بھی بازو پر گولی سے زخمی ہوگئیں۔ [9]۔
مقدمہ اور سزا
ترمیمنومبر 2011ء کو ان کے والدین ، بھائی مدثر اور بہن ساریہ کو اس مقدمے کی سماعت کے لیے پیش کیا گیا۔ سعدیہ شیخ کے بھائی پر فائرنگ کا الزام عائد کیا گیا تھا جبکہ ان کے خاندان کے باقی افراد پر اس قتل کی مدد اورزبردستی شادی کی کوشش کا الزام عائد کیا گیا تھا۔[6] پراسیکیوٹرز نے ساریہ شیخ کے لیے 20 سے 30 سال کی سزا تجویز کی جبکہ باقی افراد کے لیے عمر قید[8] [10] کی درخواست کی۔مقدمے کی سماعت مونس میں ہوئی [9] مقدمے کی سماعت کے دوران ، مدثر شیخ نے اس جرم کا اعتراف کیا اور یہ بھی دعوی کیا کہ اس نے اپنی بہن ساریہ کو بھی مارنے کی کوشش کی تھی [7]۔ اہل خانہ کے دیگر افراد نے یہ دعوی کیا کہ مدثر شیخ تنہا اس قتل کے ذمہ دار ہیں ان کے مطابق ، اس نے یہ عمل غصے میں کیا۔[10] انھوں نے واضح کیا کہ "میں سعدیہ کی زندگی نہیں لینا چاہتا تھا بس اسے احساس دلانا چاہتا تھا [11]۔ دسمبر 2011 کو جیوری نے چاروں افراد کو قتل کا مجرم قرار دیا، یہ غیرت کے نام پر قتل تھا اور بھائی اور والد نے جبری شادی کی کوشش کی [12] [13]۔ عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ والدین نے اس واقعے کا ارادہ کیا تھا اور اپنے بیٹے کو شوٹنگ کرنے کا حکم دیا [10]۔ اس وجہ سے اگرچہ مدثر شیخ کو خود 15 سال کی سزا سنائی گئی لیکن شیخ کی والدہ اور والد کو بالترتیب 20 اور 25 سال کی سزا سنائی گئی [11]۔ 22 سالہ ساریہ شیخ ، سزا کے وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھیں ، جرم کے وقت ان کی جوانی کی وجہ سے پانچ سال کی سزا سنائی گئی تھی [8] [10]۔ دسمبر 2011ء میں اطلاع ملی تھی کہ شیخ کے والدین سزا پر اپیل کر رہے ہیں۔[14] ساریہ شیخ نے بھی حق کے تحفظ کے لیے ایک اپیل داخل کی تھی لیکن یہ بتایا گیا ہے کہ اگر ان کے وکیلوں کو خاطر خواہ بنیادیں نہ ملیں تو وہ ان کی پیروی نہیں کرسکتی ہیں [15]۔ اس کیس کو بیلجیم کا پہلا غیرت کے نام پر قتل کا مقدمہ کہا گیا ہے۔[11] شہری حقوق کے گروپوں نے اسے صنفی مساوات کا مسئلہ قرار دیا ہے [10]۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "Affaire Sadia Sheikh : le portrait des accusés et de Sadia"۔ RTBF (بزبان فرانسیسی)۔ 2011-11-25۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 دسمبر 2019۔
[...]frère Mudusar le 22 octobre 2007 à Lodelinsart près de Charleroi.
- ^ ا ب "Affaire Sadia Sheikh : le portrait des accusés et de Sadia"۔ RTBF (بزبان فرانسیسی)۔ 25 November 2011۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2011
- ↑ "La mère de Sadia Sheikh va être libérée"۔ 7 Sur 7 (بزبان فرانسیسی)۔ 2017-09-12۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اپریل 2020
- ↑ "Affaire Sadia Sheikh : le portrait des accusés et de Sadia"۔ RTBF (بزبان فرانسیسی)۔ 2011-11-25۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 دسمبر 2019۔
[...]frère Mudusar le 22 octobre 2007 à Lodelinsart près de Charleroi.
- ↑ Van Winckel, Mathieu (2017-10-22)۔ "Dix ans après la mort de Sadia Sheikh, les mariages forcés restent une réalité, mais la société est plus vigilante"۔ RTBF۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 دسمبر 2019۔
Sadia avait fréquenté l'Athénée Vauban à Charleroi.
- ^ ا ب "Pakistani family stand trial for 'honour killing'"۔ Dawn۔ AFP۔ 21 November 2011۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 دسمبر 2011
- ^ ا ب پ "'I left you for dead': brother admits shooting sister in 'honour killing' and attempting to kill other sibling"۔ Sydney Morning Herald۔ AFP۔ 22 November 2011۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 دسمبر 2011
- ^ ا ب پ "Tot 25 jaar cel voor moordenaars Sadia Sheikh"۔ Het Nieuwsblad (بزبان الهولندية)۔ 13 December 2011۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2011
- ^ ا ب Palash R. Ghosh (21 November 2011)۔ "Belgian 'Honor Killing' trial places entire family on dock"۔ International Business Times۔ 30 نومبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 دسمبر 2011
- ^ ا ب پ ت ٹ "Family jailed for honour killing of Sadia"۔ AFP۔ December 13, 2011۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2011
- ^ ا ب پ "Pakistani family guilty of Belgian honour killing: media"۔ AFP۔ 12 December 2011۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 دسمبر 2011
- ↑ "Procès Sadia: les parents écopent des peines les plus lourdes"۔ RTL.be (بزبان الفرنسية)۔ 12 December 2011۔ 01 مئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 دسمبر 2011
- ↑ "Procès Sadia: les quatre membres de la famille Sheikh déclarés coupables"۔ RTL.be (بزبان الفرنسية)۔ 9 December 2011۔ 10 فروری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2011
- ↑ "Ouders van Sadia Sheikh gaan in cassatieberoep"۔ De Standaard (بزبان الهولندية)۔ 16 December 2011۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2011
- ↑ "Sariya Sheikh, la sœur de Sadia, ira aussi en cassation mais pas Mudusar"۔ RTBF (بزبان الفرنسية)۔ 22 December 2011۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 دسمبر 2011