سعید نظر نام اور تخلص نظرؔ۔ پیدائش شہر کڈپہ میں یکم جولائی، 1961 میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام داؤد نشاط ہے۔ آپ کو شاعری کا ذوق بچپن ہی سے رہا۔ آپ نے اپنی شاعری کے نوک و پلک درست کرنے کی خاطر علامہ شارق جمال ناگپوری مرحوم کے آگے زانوئے ادب تہ کیا ۔

سعید نظر
پیدائش1 جولائی 1961ء
کڈپہ، آندھرا پردیش، انڈیا
پیشہادب سے وابستگی،
وجہِ شہرتشاعری
مذہباسلام

تصانیف

ترمیم

شہر کڑپہ کے ایک معتبر و معروف شاعر سعید نظر کا شعری مجموعہ ’’غم کا سورج‘‘ سنہ 2001ء میں منظر عام پر آکر داد و تحسین حاصل کرچکا ہے۔ اس مجموعہ کلام میں تین نعتیں، چار قطعات، چند نظمیں اور بہت ساری غزلیں شامل ہیں ان کو شاعری وراثت میں ملی ہے گھر اور شہر میں ادبی ماحول ہونے کی وجہ سے اپنے ذوق سخن میں اضافہ ہوتا گیا ادبی محفلوں اور مشاعروں میں وہ اکثر اپنے والد کے ساتھ جایا کرتے تھے اور کبھی کبھی تسکین ذوق کے لیے شعر موزوں کر لیا کرتے تھے دورانِ تعلیم ان کی ملاقات ڈاکٹر ستار ساحر سے ہوئی ان کی ہمت افزائی نے سعید نظر کو شعری ڈھانچے سے واقف ہونے اور بحر و اوزان سے متعلق کچھ جاننے کا موقع فراہم کیا۔ شاعری کی مزید آبیاری کے لیے علامہ شارق جمال ناگپوری مرحوم سے رجوع ہوئے اور تمام شعری و فنی لوازمات سے آگاہی حاصل کی اور جستہ جستہ ان سے اصلاح شدہ کلام مجموعہ کلام کی شکل میں منظر عام پر آیا۔ روزگار کی تلاش میں گھر بار اور ملک چھوڑنے کے باوجود دیار غیر میں بھی ادبی ذوق قائم رکھا اسی لیے ان کی شاعری میں ہجر و وصال کی باتیں، ظلم و ستم اور سماجی نابرابری جیسے موضوعات کی فراوانی ملتی ہے بلکہ یوں کہا جائے تو بجا ہوگا کہ وہ بنیادی طور پر ترقی پسندی کے قائل ہیں وہ اپنے مجموعہ کلام ’’غم کا سورج‘‘ میں اپنی بات میں لکھتے ہیں: ’’آپ کو میری شاعری میں وصل کے شب و روز کا ذکر، ہجر کے کرب کا الاؤ اور زمانے بھر کے ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی طرف اشارے بھی ملیں گے۔‘‘ علامہ شارق جمال ناگپوری مرحوم سے اس قدر استفادہ کیا کہ صرف مستعملہ زمینوں اور بحور ہی میں نہیں بلکہ غیر مستعملہ بحور میں بھی کامیابی کے ساتھ اشعار کہنے کا فن حاصل کیا اس کی وضاحت علامہ شارق جمال ناگپوری مرحوم نے مجموعہ کلام کے پیش لفظ میں کی ہے: ’’میں اس کتاب کی غزلوں کا غزلوں کی چند بحروں کو سامنے رکھ کر عروضی تجزیہ کروں گا۔ وہ غزلیں جو مشکل اورغیر مستعملہ اوزان میں کہی گئی ہیں اور جن بحروں میں مبتدی ہی نہیں منتہی بھی شعر کی تخلیق میں ڈگمگا جاتے ہیں لیکن سعید نظر نے ان مشکل بحروں میں بھی اس روانی کے ساتھ شعر تخلیق کیے ہیں جس روانی کے ساتھ آسان اور کثرت سے مستعملہ بحروں میں اشعار کہے ہیں۔‘‘ اکثر شعرا زندگی کے آلام و مصائب کو شعری سانچے میں ڈھال کر اپنی مایوسی اور لایعنیت کا ثبوت دیتے ہیں لیکن ان سب سے ہٹ کر موصوف نے غم اور مصائب سے لڑنے اور مقصد حیات میں کامیابی حاصل کرنے کا حوصلہ پایا ہے یعنی ان کی شاعری میں قدیم روایت اور کلاسیکیت کے ساتھ ساتھ جدید طرزِ بیان بھی پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر مظفر شہ میری( شعبہ اردو، سنٹرل یونیورسٹی، حیدرآباد) نے سعید نظر کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’میں سعید نظر کو بھی ان ہی شعرا میں شمار کرتا ہوں جنھوں نے وجودیت کے منفی نظریہ کے مقابل میں اس کے مثبت نظریہ کو اپنایا اور زندگی میں پیش آنے والے حادثوں، مصائب اور غموں کے آگے ہتھیار ڈال دینے کی بجائے ان کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کو نئی معنویت سے ہم کنار کیا۔ سعید نظر کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ان کے اندر جینے کی، زندگی سے لڑنے کی، مصائب کو جھیلنے کی اور ایک باحوصلہ اور بامقصد زندگی گزارنے کی زبردست صلاحیت موجود ہے۔‘‘ سعید نظر کی شاعری میں جدیدیت بنیادی طور پر سعید نظر ترقی پسند نظریات کے قائل ہیں۔ ان کے مجموعہ کلام میں اکثر و بیشتر اشعار سماجی نابرابری، ناانصافیوں اور ظلم و استبداد کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ ماحول سے متاثر ہو کر موصوف جدیدیت کی طرف بھی راغب ہوئے ہیں۔ مجموعہ کلام کے پورے اشعار میں ایک مشت جدید رجحانات کے اشعار پائے جاتے ہیں جس میں اجنبیت، تنہائی، وجودیت، یگانگی اور علامت نگاری کے نمونے ظاہر ہیں چند اشعار ملاحظہ ہوں:

میرے اندر سے کوئی مجھ کو صدا دیتا ہے

اک نئے وقت کے آنے کا پتہ دیتا ہے

جب میں تنہا کمرے میں تھا

غم کا لشکر سینے میں تھا

میرا اپنا سایہ بھی میرے خلاف

مرے گھر کے اندر دکھائی دیا

یوں تو تھے ساتھ میں بہت سے لوگ

پھر بھی تھا کیوں راہ پر میں تنہا

جدید طرزِ اظہار میں علامت نگاری اور نئی تراکیب نے کافی اہم رول ادا کیا ہے سعید نظر کی شاعری میں چیدہ چیدہ ہی سہی علامتی اشعار دیکھے جا سکتے ہیں۔ امن کی کبوتری، غبار وقت، سوکھا شجر جیسے الفاظ سے شاعری میں ایک نیا آہنگ پیدا کیا ہے:

سامنے میرے کچھ نہیں کہتا

میری تصویر پھاڑ دیتا ہے

غبار وقت اوڑھے پڑے تھے سب کے سب

میں خود کو دیکھ لوں جس میں وہ آئینہ نہ ملا

سعید نظر کی شاعری میں کلاسکی اشعار، ترقی پسند رجحانات اور جدیدیت کا امتزاج پایا جاتا ہے موصوف کا لہجہ جدید اور منفرد ہے وہ تمام شعرا میں اس لیے بھی منفرد ہیں کہ شعر کو پیش کرنے کا انداز جداگانہ ہے اگر انھیں جدید لب و لہجہ کا شاعر کہیں تو غلط نہ ہوگا۔

حوالہ جات

ترمیم

[1]

  1. یہ مضمون امام قاسم ساقی ؔ کے مقالہ شعراے کڈپہ کی غزلوں میں جدید رجحانات سے لیا گیا ہے