سلسلہ کبرویہ
سلسلۂ کبرویّہ
اس سلسلہ کے بانی شیخ نجم الدین کبریٰ تھے (1221ء ) ان کا نظام اِصلاح و تربیت غیر معمولی طور پر موثر تھا۔ یہ طریقہ کچھ ایسا حیا ت بخش تھا کہ وہ جس پر توجہ فرما دیتے پتھر بھی ہوتا تو آئینہ بن جاتا۔ اسی بنا پر ان کو ’شیخِ ولی تراش ‘کہا جاتا تھا۔ ہندوستان میں طریق سلوک سے متعلق آپ کی دو تصانیف بہت مشہور ہیں۔ آپ نے منگولوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہادت حاصل کی۔ لیکن آپ کے مرید ین نے انہی منگولوں میں ایسا کام کیا کہ وہ گروہ در گروہ مسلمان ہوتے گئے۔ ان میں شیخ مجد الدین بغدادی (1219ء)شیخ سعد الدین حموی (1252ء)،شیخ رضی الدین علی لالہ (م 1244ء)شیخ سیف الدین با خرزی (1260ء)اور شیخ بہا الدین ولد مولانا جلال الدین رومی کے نام خاص ہیں۔ خواجہ فرید الدین عطار ،شیخ مجد الدین بغدادی کے مرید تھے۔ کبرویہ سلسلے کی بعد میں بہت سی شاخیں بن گئیں۔ مثلاً فردوسیہ،ہموانیہ،اشرفیہ وغیرہ،شیخ سیف الدین باخرزی کے مرید شیخ بد رالدین سمر قندی نے فردوسی سلسلے کو ہندوستان میں روشناس کرایا۔ بعد میں یہی تینوں سلسلے سید علی ہمدانی شیخ شرف الدین یحیٰ منیری(1380ء )اور سید اشرف جہانگیرسِمنانی (1380ء )کے ناموں سے منسوب ہو کر خوب پھلے پھولے۔ سلسلۂ فردوسیہ کے متعلق اہل تصوف کی دو رائیں ملتی ہیں۔ بعض اسے شیخ نجم الدین کبریٰ سے منسوب کر کے کبرویہ میں داخل کرتے ہیں اور بعض سہروردیہ بتاتے ہیں۔ سلسلۂ فردوسیہ کا آغاز دہلی سے ہوا لیکن اس کی نشو و نما،شہرت اور وُسعت بہار کے حصہ میں آئی۔ دیوریا میں خاندانِ ساداتِ عباسیان کے درمیان میں بھی قادریہ،چشتیہ،شطاریہ کے علاوہ خاص طور پر سلسلۂ فردوسیہ بھی مرکز توجہ رہا اور قاضی شاہ محمد عبا س دیوریاوی کے ذریعے اسے بڑا فروغ حاصل ہو ا۔[1]