ہندو تقویم کی اصطلاح بھارت میں مستعمل مختلف شمسی قمری تقویم کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ان سب کا بنیادی مقصد وقت کی پیمائش ہے مگر سورج یا چاند کی گردش اور مہینوں کے نام کے علاوہ کون سا سال کب شروع ہوگا، اس میں فرق پایا جاتا ہے۔[1] اس نوع کی متعدد علاقائی تقویمیں پائی جاتی ہیں مگر سب سے زیادہ مشہور وکرمی تقویم ہے جسے بکرمی بھی کہا جاتا ہے۔ اسے برِصغیر کے شمالی، مغربی اور وسطی علاقوں میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ جنوب میں تَمل اور مشرق میں بنگالی تقویم مستعمل ہے۔ ان سب کا انحصار چاند کی گردش پر ہوتا ہے اور نیا سال بہار میں شروع ہوتا ہے۔ ان کی ابتدا پہلی صدی قبل مسیح سے ہوتی ہے۔ کیرالہ جیسے علاقوں میں شمسی چکر کو ترجیح دی جاتی ہے جو ملیالم تقویم کہلاتی ہے۔ اس میں نیا سال خزاں سے شروع ہوتا ہے اور پہلی صدی عیسوی کی دوسری دہائی میں اس کا آغاز ہوا۔[1][2] ہندو تقویم کو بعض اوقات پانچانگ بھی کہتے ہیں۔[3]

ہندو تقویم 1871-72 سے ایک صفحہ

قدیم ہندو تقویم نظریاتی طور پر یہودی تقویم سے مماثل ہے مگر گریگوری تقویم سے مختلف ہے۔[4] گریگوری تقویم میں قمری مہینے میں کچھ دنوں کا اضافہ کیا جاتا ہے تاکہ 12 قمری مہینوں کے مجموعے 354 روز[5] کو سال کے 365 دن کے برابر لایا جا سکے۔ ہندو تقویم میں ہر چند سال بعد ایک اضافی مہینہ ڈال دیا جاتا ہے تاکہ فصلی تہوار وغیرہ کا وقت برقرار رہے۔[2][4]

ہندو تقویم برِصغیر میں زمانہ قدیم سے مستعمل ہے اور آج بھی بھارت اور نیپال کے ہندو اپنے مذہبی تہوار جیسا کہ ہولی، ماہا شیوراتری، ویساکھی، رکھشا بندھن، پونگل، اونم، کرشنا جنم اشٹمی، درگا پوجا، رام لیلا، ویشو اور دیوالی وغیرہ اسی کے مطابق مناتے ہیں۔ ہندوستان کی اولین بدھ آبادیوں نے بھی پہلے اسے اور پھر وکرمی تقویم کو اپنایا پھر اپنی مقامی بدھ تقویم پر منتقل ہو گئے۔[6] بدھ تقویم کو روایتی طور پر کمبوڈیا، لاؤس، میانمار، سری لنکا اور تھائی لینڈ میں استعمال کیا جاتا ہے جو اصلاً ہندو تقویم ہی سے ماخوذ ہے۔[7][8][9]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب B. Richmond (1956)۔ Time Measurement and Calendar Construction۔ Brill Archive۔ صفحہ: 80–82۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2011 
  2. ^ ا ب Christopher John Fuller (2004)۔ The Camphor Flame: Popular Hinduism and Society in India۔ Princeton University Press۔ صفحہ: 109–110۔ ISBN 978-0-69112-04-85۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مئی 2018 
  3. Klaus K. Klostermaier (2007)۔ A Survey of Hinduism: Third Edition۔ State University of New York Press۔ صفحہ: 490۔ ISBN 978-0-7914-7082-4۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مئی 2018 
  4. ^ ا ب Eleanor Nesbitt (2016)۔ Sikhism: a Very Short Introduction۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 122–123۔ ISBN 978-0-19-874557-0۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مئی 2018 
  5. Orazio Marucchi (2011)۔ Christian Epigraphy: An Elementary Treatise with a Collection of Ancient Christian Inscriptions Mainly of Roman Origin۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 289۔ ISBN 978-0-521-23594-5۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مئی 2018  , Quote: "the lunar year consists of 354 days".
  6. Anita Ganeri (2003)۔ Buddhist Festivals Through the Year۔ BRB۔ صفحہ: 11–12۔ ISBN 978-1-58340-375-4۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مئی 2018 
  7. Jeffery D Long (2013)۔ Jainism: An Introduction۔ I.B.Tauris۔ صفحہ: 6–7۔ ISBN 978-0-85771-392-6۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مئی 2018 
  8. John E. Cort (2001)۔ Jains in the World: Religious Values and Ideology in India۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 142–146۔ ISBN 978-0-19-513234-2۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مئی 2018 
  9. Robert E. Buswell Jr.، Donald S. Lopez Jr. (2013)۔ The Princeton Dictionary of Buddhism۔ Princeton University Press۔ صفحہ: 156۔ ISBN 978-1-4008-4805-8۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مئی 2018 

کتابیات ترمیم