سملی شہزادی علاقہ پوٹھوہار کی لوک داستان کا حصہ جو بعد میں سملی دیوی سے مشہور ہوئی۔

  • سملی شہزادی راجا سارگن کی بیٹی تھی یا دریودھن کی اس حوالے میں تاریخ میں تضاد موجود ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ وہ شہزادی تھی اور جب اس نے خود کشی کی تو اس کی یاد میں موجودہ ایوب پارک میں ایک مندر اور سٹوپا بنوائے گئے اسی مناسبت سے ایوب پارک کا پرانا نام ’ٹوپی رکھ‘ ہے۔ راجا سارگن کشان عہد کے بعد کشمیر اور ملحقہ علاقوں کا حکمران رہا اور جس کا عہد 217 سے 260 تک کا ہے۔ راجا سارگن کا پایہ تخت راولپنڈی کے موجودہ علاقے مورگاہ میں تھا۔
  • شہزادی سملی اکثر ٹیکسلا سے اپنی نانی کوری دیوی کے پاس آیا کرتی تھی۔ کوری دیوی کے نام پر ہی اسلام آباد کا ایک قدیم گاؤں کُری آج بھی موجود ہے۔ سملی یہاں سے دریائے سواں کی سیر کو جایا کرتی تھی جسے اس زمانے میں دریائے شوشماں کہا جاتا تھا۔ سملی یہاں پہاڑیوں پر چڑھ کر شکار کھیلتی، سہیلیوں کے ساتھ دریا کے پتھروں پر بیٹھ کر اپنے پاؤں ٹھنڈے پانی میں ڈال کر گانے گاتی۔[1]
  • ایک دن کا ذکر ہے جب سملی دریا کنارے بیٹھی تھی کہ دریا کے اس پار ریاست کا شہزادہ جس کا نام راج دھن تھا شکار کھیلتے کھیلتے ادھر آ نکلا۔ اس نے دیکھا کہ ایک نہایت ہی حسین وجمیل شہزادی دریا میں اپنی ٹانگیں ڈال کر بیٹھی ہے۔ ایک لمحے کوتو اسے ایسا لگا جیسے پانی پر کوئی تصویر بن گئی ہو اور پانی بھی شہزادی کی حسن کی تاب نہ لا کر ٹھہر گیا ہو۔ اس نے دریا میں پتھر پھینکا تاکہ شہزادی کو اپنی جانب متوجہ کر سکے۔ شاید شہزادی کو بھی ایسے ہی شہزادے کی تلاش تھی۔ پہلی نظر ہی پیار ہو گیا۔ رفتہ رفتہ حالات یہاں تک پہنچے کہ دونوں کا عشق زبان زد ِخاص وعام ہو گیا۔ شہزادے راج دھن نے اس کے باپ کے پاس سملی کا رشتہ مانگنے کے لیے پیغام بھیجا۔ چونکہ راج دھن ایک چھوٹی ریاست کا شہزادہ تھاشہزادی کے باپ کو اپنی سلطنت اور طاقت پر گھمنڈ تھا اس لیے وہ سملی کی شادی کسی ہم پلہ شہزادے سے کرنا چاہتا تھا۔ اپنے باپ کے انکار پر شہزادی سملی بہت مایوس ہوئی۔ ایک روز اس نے دریا کے کنارے ستر فٹ بلند چٹان پر چڑھ کر دریا میں چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی۔ آنے والے وقتوں میں سملی ایک دیوی کہلائی جس کی پوجا کی جانے لگی اور دریا کا نام بھی سملی پڑ گیا۔ اسلام آباد کے باسیوں کو جہاں سے پانی ملتا ہے وہ ڈیم بھی اسی لازوال داستان سملی ہی سے موسوم ہے۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. پاکستان کے آثار قدیمہ‘راجا محمد عارف منہاس صفحہ 13
  2. https://www.independenturdu.com/node/48246