پروفیسر سمیع اللہ قریشی 6 جون 1936ء کو اسلام پور قاضیاں میں پیدا ہوئے۔ یہ گاؤں مشرقی پنجاب کے ضلع گورداسپور میں واقع ہے۔ ابتدائی عمر سے انھیں شاندار علمی ماحول میسر آیا۔ ان کے گھر میں اس زمانے کے مقبول ادبی مجلے آتے تھے ان میں عالم گیر،خیام،ادب لطیف،زمانہ،ادبی دنیا اور شاہ کار قابل ذکر ہیں۔ بچپن ہی سے انھیں شاعری سے دلچسپی تھی۔ جب وہ ثانوی کلاس کے طالب علم تھے تو ان کی شاعری کی دھوم مچ گئی۔ یہ شعر انھوں نے نو برس کی عمر میں کہا تو ان کے اساتذہ ان کے اسلوب سے خوش ہوئے،

قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان لاہور پہنچا اور بازار حکیماں ،بھاٹی گیٹ میں واقع ایک مکاں میں قیام کیا۔ ادبی مجلہ نقوش کے مدیر محمد طفیل بھی اس زمانے میں اسی محلے میں رہتے تھے۔ حکیم احمد شجاع نے اس محلے کو لاہور کا چلیسی کہا اور اس کے مکینوں کے علمی و ادبی ذوق کہ بہ نظر تحسین دیکھا۔ 1951ء میں وہ اسلامیہ کالج سول لائنز،لاہور میں بی۔ اے میں داخل ہوئے اور اس کے بعد جامعہ پنجاب،لاہور سے اسلامیات میں ایم۔ اے کیا۔ 25 نومبر 1959ء کو انھوں نے بہ حیثیت لیکچرر اسلامیات گورنمنٹ کالج بہاول نگر سے ملازمت کا آغاز کیا۔ اس کے بعد وہ 9اکتوبر 1963ء کو عظیم اور تاریخی مادر علمی گورنمنٹ کالج جھنگ پہنچے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جھنگ کو شہر سدا رنگ کی حیثیت سے پوری دنیا میں اہم مقام حاصل تھا۔ جھنگ کی ادبی کہکشاں کی ضیا پاشیوں سے نگاہیں خیرہ ہوتی تھیں۔ ان میں سید جعفر طاہر،سید غلام بھیک نیرنگ،حفیظ ہوشیارپوری،عبد العزیز خالد،خادم رزمی،مجید امجد،کبیر انور جعفری،شیر افضل جعفری،امیر اختر بھٹی،صاحب زادہ رفعت سلطان،غلام علی چین،رانا سلطان محمود،خیر الدین انصاری،محمد حیات خان سیال،شارب انصاری،پروفیسر تقی الدین انجم (علیگ)،قیصر رومانی،ڈاکٹر سید نذیر احمد،حکمت ادیب،مرزا معین تابش،بیدل پانی پتی،احمد تنویر،فضل بانو،طاہر سردھنوی،خادم مگھیانوی،سید مظفر علی ظفر،آغا نو بہار علی خان اور خواجہ شائق حسن کے نام قابل ذکر ہیں۔ جھنگ میں ہفتہ وار ادبی نشستوں کے باقاعدہ انعقاد میں پروفیسر سمیع اللہ قریشی نے گہری دلچسپی لی۔ انھوں نے اپنی ایک ادبی تنظیم بھی قائم کی جس کا نام مجلس سلطان باہو تھا۔ اس مجلس نے ادبی فعالیت کو سازگار فضا فراہم کی اور عوام میں مثبت شعور و آگہی بیدار کرنے میں کلیدی کر دار ادا کیا۔

پروفیسر سمیع اللہ قریشی کا کہنا تھا کہ حیات جاوداں کا راز ستیز میں پوشیدہ ہے۔ ان کی خطر پسند طبیعت نے سعیِ پیہم کو ترازوئے کم و کیف حیات قرار دیا۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح کے متعدد علمی و ادبی مقابلوں میں انھوں نے حصہ لیا اور اپنی خدا داد صلاحیتوں کی بدولت ہر مقابلے میں کامیاب و کامران رہے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا جن میں سے چند اہم حسب ذیل ہیں :

  • ساندل ایوارڈ 1991،
  • پنجاب ٹیچرز فورم ایوارڈ،
  • جام درک ایوارڈ 1992،
  • مسعود کھدر پوش ایوارڈ 2002،

پاکستان میں انھیں ہر علمی،ادبی اور مذہبی کانفرنس میں مدعو کیا جاتا تھا۔ قومی سیرت کانفرنس میں وہ کئی بار بہ طور مندوب اور مقالہ نگار شامل ہوئے۔ عالمی اردو کانفرنس اور مشاعروں میں بھی انھوں نے ہمیشہ شرکت کی اور انھیں زبردست پزیرائی ملی۔ ان کی بیس کے قریب وقیع تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ ان میں سے اکثر پر انھیں انعام سے نوازا گیا۔ پروفیسر سمیع اللہ قریشی کتابوں کے شیدائی تھے۔ وہ کتابوں سے اپنی اولاد کی طرح پیار کرتے تھے

تصانیف

ترمیم
  • بیتے دنوں کی چاپ (آپ بیتی)
  • افکار اقبال (1977)
  • موضوعات فکر اقبال (1996)
  • سر زمین جھنگ
  • ساڈی سوہنی دھرتی

وفات

ترمیم

26 مارچ 2011ء کو رحلت فرمائی، لاہور میں تدفین ہوئی،